• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال 14 اگست کو جہاں ہمیں پاکستان کی عظیم نعمت پر شکر ادا کرنے کا موقع ملتا ہے وہیں اپنے آپ سے، اپنی قوم سے یہ گلہ بھی ہوتا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان سے بحیثیت قوم ہم نے وفا نہیں کی، ہم نے اپنے پیارے پاکستان سے بار بار دھوکہ کیا، ہم نے آزادی کے وقت جو عہد کیے، جو وعدہ کیے وہ پورے نہیں کیے بلکہ اُن وعدوں کے برخلاف ہی چلتے رہے اور یہ سلسلہ اب بھی ویسے ہی چل رہا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں نہ صرف بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے بلکہ بحیثیت قوم ہم میں بےپناہ خرایاں اور خامیاں بھی سرائیت کر چکی ہیں۔ آج تک نہ ہم کوئی سسٹم بنا سکے نہ نظام حکومت کو چلانے کا ہنر سیکھ سکے، نہ یہاں انصاف کا نظام ہے، نہ حکومتی مشینری کوئی کام کر رہی ہے، معیشت کا حال بُرا ہے، کوئی خامی، کوئی بُرائی ایسی نہیں جو ہم میں موجود نہ ہو۔ جب پاکستان سے دھوکےکی بات کی جاتی ہے تو سب سے بڑا دھوکہ جو ہم نے اس دھرتی کے ساتھ کیا وہ یہ ہے کہ ہم نے اسے اسلام کے نام پر حاصل کیا، بار بار اسلام کا نام استعمال کیا، اس کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا نعرہ لگاتے رہے، قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان میں پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے اور اسے اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے مطابق چلانے کا وعدہ کیا لیکن اس پر عمل کبھی نہیں ہوا۔ بلکہ عملاً جو ہم نے کیا، جو آئین پاکستان میں لکھا اُس کے برخلاف ہی چلے جا رہے ہیں اور یوں ایک ایسے بگاڑ کا شکار ہوچکے ہیں جہاں ہمارا آئین کچھ اور کہتا لیکن ہمارا نظام کسی اور ہی طرف چل رہا ہے۔یہ پاکستان سے دھوکہ نہیں تو اورکیا ہے ،ہم نے اس کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا لیکن نہ قرارداد مقاصد پر عمل کیا نہ آئین کی اسلامی شقوں کا نافذ کیا جا رہا ہے۔ آئین مکمل اسلامی ماحول کی فراہمی کی بات کرتا ہے لیکن ہم تو مغرب اور بھارت کے کلچر کی تقلید میں بہت آگے نکل گئے۔ آئین پاکستان کے مطابق اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے ریاست، حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کی اہم ترین ذمہ داریاں ہیں لیکن ہمارے اکثر حکمران، سیاستدان، پارلیمنٹیرین، جج، جرنیل اور افسرشاہی انگریز کے نظام اور اُسی کی سوچ سے ہی متاثر نظر آتے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ سود کی لعنت کو ختم کرو لیکن ہمارا معاشی نظام آج بھی سودی ہے ۔ اس کے باوجود کہ سود پاکستان کی بنیادوں کو کھائے جا رہا ہے، اس کے خاتمہ کیلئے کوئی سنجیدہ نہیں۔ شراب کی اسلام میں سخت ممانعت ہے لیکن ایک اقلیتی رکن اسمبلی کی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے دہائی ،کہ اقلیتوں کے نام کے پر شراب کو پاکستان کے گلی محلوں میں مت فروخت کریں۔ کے باوجود نہ عدالت نے اور نہ ہی پارلیمنٹ نے شراب پر پابندی لگائی۔ آئین پاکستان کے مطابق پاکستان کا کوئی قانون اسلامی تعلیمات کے برخلاف نہیں بن سکتا لیکن اسلامی نظریاتی کونسل سینکڑوں ایسے قوانین کی نشاندہی کر چکی جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ ان قوانین کو پارلیمنٹ نے نہیں بدلا۔ آئین پاکستان میں ممبران اسمبلی کیلئے دی گئی اسلامی شرائط پر کوئی عمل نہیں کرتا بلکہ ان اسلامی شقوں کے خاتمہ کی بات کی جاتی ہے۔ پالیمنٹ کا ہر رکن آئین کے مطابق پابند ہے کہ وہ اسلامی نظریہ پاکستان جو پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے کا دفاع کرے اور اس کے مطابق کام کرے لیکن کتنے ہی ہمارے ممبران اسمبلی نہ صرف کھلم کھلا اسلامی نظریہ پاکستان کی نفی کرتے ہیں بلکہ پاکستان کو ایک سیکولر اور لبرل ملک بنانے کی بات کرتے ہیں۔ آئین پاکستان کہتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگیاں گزار سکیں لیکن ایسا یہاں نہ کچھ کیا جا رہا ہے نہ ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جب اسلام کا نفاذ نہ ہو گا اور اسلامی تعلیمات سے بھی معاشرے کو روشناش نہیں کرایا جائے گا تو پھر معاشرے کے مختلف طبقوں بشمول خواتین، اقلیتوں کے حقوق بھی غیر یقینی رہیں گے۔ یہاں تو ہم مغربی کلچرکی اندھی تقلید میں اتنا آگے نکلتے جا رہے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔ پاکستان سے اتنا بڑا دھوکہ کر کے ہم کیسے ترقی اور خوشحالی کی منزل کو حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہم سب کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین