بنگلہ دیش میں ہونے والے طلباء کے ہنگاموں کے بعد شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے نے سب کو چونکا دیا ہے۔ 15سال سے مسلسل اقتدار میں رہنے والی’ آئرن لیڈی‘ کی حکومت آج سے دو ماہ پہلے تک خاصی مضبوط دکھائی دیتی تھی لیکن وسط جون سے ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف طالب علموں کے احتجاج اور پر تشدّد ہنگاموں نے اس مضبوط حکومت کو اس قدر کمزور کر دیا کہ 5اگست کو بنگلہ دیش کی آئرن لیڈی شیخ حسینہ واجد کو استعفیٰ دے کر ملک سے بھا گنا پڑا۔ تاریخ اور سیاست کے طالب علم اس حیرت انگیز تبدیلی پر انگشت بہ دندان ہیں کہ اچانک یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ کیا یہ صرف طالب علموں کی احتجاجی تحریک تھی جس نے اس حسینہ واجد کی حکومت کو زمین بوس کر دیا۔ جس نے سائوتھ ایشیا کے سب سے پس ماندہ ملک کو نہ صرف ایشیائی ٹائیگربنا دیا تھا بلکہ اس خطے میں سب سے زیادہ تیز رفتار ترقی کرنے والے ملک کا اعزاز بخشا تھا۔ کیا اس میںکوئی بیرونی ہاتھ بھی ملّوث تھا۔ سڑکوں پر احتجاج کرنیوالے طالب علموں کو اندرون ِ ملک کسی بنگلہ دیشی سیاستدان کی سربراہی بھی میّسر نہیں تھی کیونکہ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اپوزیشن رہنما بیگم خالدہ ضیاء سمیت تمام سرکردہ سیاسی رہنما پابندِ سلاسل تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی بنیاد رکھنے والی حسینہ واجد جو بنگلہ دیش کے بابائے قوم کی صاحبزادی بھی تھی اور اس پارٹی کی سربراہ بھی جس نے بنگلہ دیش کو آزادی دلائی تھی۔ اچانک نہ صرف بنگلہ دیش سے خودفرار ہوگئی بلکہ بپھرے ہوئے ہجوم نے اس کے والد بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرّحمان کے مجسموں کو بھی زمین بوس کردیا۔ شیخ مجیب اور اس کے مجسموں کے ساتھ یہ سلوک دوسری مرتبہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے 15اگست 1975کو بنگلہ دیش کے فوجی جوانوں نے بنگلہ بندھوکے دھان منڈی کے بنگلے میں گھس کر شیخ مجیب الرحمان کو خاندان سمیت قتل کردیا تھا۔ جس میں اسکی بیوی، بیٹے اور بہویں بھی شامل تھیں۔ صرف شیخ مجیب کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ زندہ بچی تھیں کیونکہ اس وقت وہ جرمنی میں زیرِ تعلیم تھیں۔ بہر حال حسینہ واجد شیخ مجیب کے قتل کے بعداپنی سیاسی حریف بیگم خالدہ ضیاء کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کرتی رہیں۔ جس کے نتیجے میں پہلے بیگم خالدہ ضیاء اور اس کے بعد شیخ حسینہ برسرِ اقتدار آگئیں۔ اسی زمانے یعنی 2005میں مجھے بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد دونوں خواتین سے ناخوش تھے کیونکہ انکی باہمی رفاقت سیاسی سے زیادہ ذاتی انتقام میں بدل چکی تھی۔ شیخ حسینہ 2009سے مسلسل اقتدار میں تھیں اور فوج کے تعاون سے وہ ایک ڈکٹیٹر کا روپ دھار چکی تھیں ۔ 2015کے عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ کے باوجود شیخ حسینہ نے انتخابات کروائے اور دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کرلی ۔ انہی دنوں ایک امن کانفرنس کے سلسلے میں مجھے نئی دہلی جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے عوامی لیگ کے مندوبین سے ملاقات کا موقع ملا۔ ان میں سے بھی بعض افراد ان انتخابات کے نتائج سے مطمئن نہیں تھے۔ وطن واپسی پر میں نے روزنامہ جنگ میں ’’ بنگلہ دیش عدم استحکام کے راستے پر ‘‘ کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھّا تھا۔ جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ معاشی ترقی کے باوجود بنگلہ دیش سیاسی عدم استحکام کے راستے پر گامزن ہے اور کسی وقت بھی سیاسی بحران کی زد میں آسکتا ہے کیونکہ حسینہ واجد کا طرزِ حکومت مکمل طور پر فاشسٹ اور آمرانہ ہے۔ بظاہر تو سب سے بڑا فیکٹر یہی ہے کہ بنگلہ دیش کے سیاسی کلچر میں زیادہ دیر تک آمریت کو برداشت کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی فرق متحدہ پاکستان کے زمانے میں بھی مغربی اور مشرقی پاکستان میں پایا جاتا تھا۔ جسکے تحت بنگلہ زبان تحریک سے لیکر جنرل ایوب اور جنرل یحیٰی خان کی ڈکٹیٹر شپ نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا۔ جبکہ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کے نیم جاگیردارانہ معاشرے میں ڈکٹیٹر شپ کی قبولیت کیلئے زیادہ گنجائش پائی جاتی ہے۔ تقسیم ِ ہند سے پہلے 1905میں بنگال کی تقسیم اور 1937میں مشرقی بنگال میں مسلم لیگ کی فتح نے بھی ثابت کردیا تھا کہ بنگالی سیاسی طور پر مغربی پاکستان سے زیادہ بالغ ِ نظر ہیں کیونکہ 1937 میں مسلم لیگ مغربی پاکستان میں انتخابات ہار گئی تھی۔ حسینہ واجد کی پالیسیوں کے علاوہ بیرونی سازشی نظریات کی بھی آج کل شدید بھرمار ہے۔ کوئی اسے آئی ایس آئی سے منسوب کر رہا ہے اور کوئی امریکی مداخلت سے ۔ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو اس سارے عمل کو ’’ نظریہ پاکستان ‘‘ کے دوبارہ زندہ ہونے سے جوڑ رہا ہے۔ میرے خیال کے مطابق یہ تصّور خوش فہمی کے زمرے میں آتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حالیہ معاشی ترقی کی بنیاد ہی اس کا سیکولرنظریہ ہے۔ چونکہ بنگلہ دیش پاکستان کے برعکس صرف ایک قوم یعنی بنگالیوں پر مشتمل ہے لہٰذا وہاں بنگلہ قوم پرستی کو اس سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک بیرونی مداخلت کا تعلق ہے تواس میں امریکی ہاتھ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو بنگلہ دیش میںبڑھتے ہوئے چینی اثرات کو روکنا چاہتا ہے۔ آنیوالے دنوں میںبنگلہ دیش میں شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے مستقبل کا دارومدار عبوری حکومت کی کارکردگی پر منحصر ہے معروف اور مضبوط لیڈر شپ کی غیر موجودگی میں بنگلہ دیش کا یہ انقلاب انارکی اور فوجی ڈکٹیٹر شپ کا روپ بھی دھار سکتا ہے اگر ایسا ہوا تو وقتی جوش ٹھنڈا ہونے کے بعد عوام شیخ حسینہ کے دور میں ہونے والی ترقی کو دوبارہ یاد بھی کرسکتے ہیں ۔ جس سے کسی وقت بھی عوامی لیگ اور شیخ حسینہ کیلئے بنگلہ دیش میں قبولیت کے جذبات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔