• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جس میں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں۔ آبادی بہت ہے اور غربت بھی۔ بچے کھلے مین ہول میں گر کے مر جاتے ہیں، جس کا ڈھکن کسی نشئی نے چوری کر لیا ہو۔ یہ واقعہ کسی ترقی یافتہ ملک میں رونما ہو تو قیامت برپا ہو جائے۔ایک بڑی تعداد ناخواندہ ہے۔ پھر جو بظاہر تعلیم یافتہ ہیں، وہ بھی محض رٹّے باز۔ ہمارا تعلیمی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی بچہ اپنا دماغ استعمال کرنا نہ سیکھ پائے۔ یہی وجہ ہے کہ مستثنیات کے علاوہ ہر شعبے میں پاکستانی دنیا میں ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ دنیا میں کرشمےبھی برپا ہوتے ہیں۔ ہم مگر وہ قوم ہیں، جو دن رات دوسروں کو کرشمے سناتے اور عملی زندگی میں انہی کرشمات کے برپا ہونے کے طلب گار رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ زندگی کے جس شعبے میں آپ نے کرشمے سنے ہوں گے اور دوسروں کو سنائے بھی ہوں گے، وہ میڈیکل سائنس ہے۔ میڈیکل سائنس کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈمیری رائے میں نبض شناسی ہے۔ ایک شخص، جس نے قطعاً کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی، وہ یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ وہ آپ کی نبض پکڑ کے آپ کو لاحق چھوٹی سے چھوٹی بیماری کی تشخیص کر لے گا۔جب کہ نبض بیچاری کا تعلق صرف دل سے ہے۔ اس سے دل کے بارے میں کچھ ادھوری سی معلومات مل سکتی ہیں اور بس۔ اس سے بھی بڑ ی حیرت کی بات یہ ہے کہ بہت پڑھے لکھے لوگ بھی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ نبض شناس درست کہہ رہا ہے۔ جو شخص نبض شناسی سے آپ کی بیماریوں کی تشخیص کر رہا ہے، اس سے اگر انسانی جسم کے بارے میں دس آسان سوال پوچھے جائیں تو وہ ان میں سے ایک کا بھی جواب نہ دے سکے۔ مثلاً یہی پوچھ لیں کہ دل کے کتنے والوز ہیں۔ اس سے آپ پوچھیں کہ ہارٹ اٹیک میں دل کے ساتھ کیا واقعہ رونما ہوتا ہے،جس سے وہ کام کرنا چھوڑ دیتاہے، وہ کبھی نہ بتا سکے گا۔ آپ اس سے پوچھیں کہ وہ دماغ میں ایک خصوصی حفاظتی جھلی ہوتی ہے، جو خون کو اچھی طرح چھان پھٹک کے دماغ میں داخل ہونے دیتی ہے، اس کا نام بتا دیں۔ وہ کبھی آپ کو بلڈ برین بیرئیر کا نام نہیں بتا سکے گا۔ آپ اس سے پوچھیں کہ دماغ میں کتنے نیوران ہوتے ہیں۔ اس کا کھلا ہوا منہ آپ سے یہ پوچھے گا کہ نیوران ہوتا کیا ہے۔ اس کے باوجود آپ کو ہر گھر میں ایک ایسا کہانی سنانے والا ضرور ملے گا، جو بتائے گا کہ ایک شخص بس مرنے ہی والا تھا۔ کفن منگوایا جا چکا تھا اور قبر کھودنے کی تیاری شروع تھی کہ ایک ملنگ نما حکیم گزرا۔ اس نے جیب سے ایک پڑیا نکال کر چند دانے مردے کے منہ میں ڈالے اور وہ اپنے پیروں پہ اٹھ کے کھڑا ہو گیا۔اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی بیمار ہی نہیں ہوا۔ آپ کو رکشوں کے پیچھے پوسٹر لگے نظر آئیں گے کہ اپنے گردوں کو ڈائلسز سے ہٹائیں۔ جس شخص کو ڈائلسز کی ضرورت ہو اور وہ ڈائلسز نہ کروائے، وہ دنوں نہیں تو ہفتوں میں مر جائے گا۔ وہ جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ روحانی علاج کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔کیا ایسا ہی ایک درویش ”شف شف“ سے لوگوں کا علاج نہیں کرتا پھر رہا۔ کیا کبھی کسی ادارے نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں عوام الناس کی جان و مال سے کھیلتا پھر رہا ہے۔نبض شناسی کے بعد دوسرا جھوٹ آپ کو یہ سننے میں ملے گا کہ جنسی فعل زیادہ کرنے سے آپ کی ریڑھ کی ہڈی کھوکھلی ہو جاتی ہے، منہ پچک جاتا ہے، صحت تباہ ہو جاتی ہے۔یہ سب سفید جھوٹ ہے۔ درحقیقت پاکستان میں جو یہ طب ہے، وہ جنسی معاملات کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ آپ کو دیواریں ان کے اشتہارات سے بھری نظر آئیں گی۔ کچھ عرصہ پہلے دو بزرگ حکیموں کی ایک وڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک بزرگ دوسرے کو نماز پڑھنے کا ”صحیح“ طریقہ بتا رہا تھا۔ ان دونوں بزرگوں کی وڈیوز سے انٹرنیٹ بھرا پڑا ہے اور یہ سب جنسی علاج کے گرد گھومتی ہیں۔ سفید داڑھیوں کے ساتھ وہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ جنسی عمل جو کہ چند منٹ تک محدود ہوتاہے، اسے گھنٹوں تک کیسے لے جایا جائے۔ میں ان حکیموں اور طبیبوں کی بات ہرگز نہیں کر رہا، جنہوں نے کسی یونیورسٹی سے باقاعدہ طب کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ویسے مارکیٹ میں 95فیصد حکما نے کہیں سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی۔ بیشتر نے میٹرک بھی نہیں کیا۔وہ آپ کو کھانے کیلئے ایسے سٹیرائیڈ دیتے ہیں، جو وقتی طور پر بے پناہ فائدہ دیتے ہیں۔ آپ صدقہ ء جاریہ سمجھ کر اس طبیب کی مفت مارکیٹنگ کرتے ہیں۔ بعد ازاں ان سٹیرائیڈز کے خوفناک نقصانات شروع ہوتے ہیں۔ آپ کی رہی سہی صحت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ایکسرے، الٹراساؤنڈ، ایم آر آئی اور خون کے مختلف ٹیسٹ یہ لوگ استعمال ہی نہیں کر تے۔رپورٹ پڑھنے کی ان میں قابلیت ہی نہیں۔ اگر سرجری کی ضرورت پڑ جائے تو بے بسی کے ساتھ کسی کوالیفائیڈ سرجن کے سامنے جا کر لیٹ جاتے ہیں۔ اگر آپ کا وزن بڑھ جائے تووہ آپ کو ایسی ادویات دیتے ہیں، جن سے آپ کو بار بار پاخانہ آئے اور وزن کم ہو جائے۔علاج کو یہاں ایک تماشہ بنا دیا گیا ہے۔ جس ملک میں زوربازو سے عوامی مینڈیٹ چھین لیا جاتا ہو، وہاں اس کے سوا اور کیا امید رکھی جائے۔ ایسا ہے میرا دیس!

تازہ ترین