اس میں شک نہیں کہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے علیحدہ کرنے میں بھارتی حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ بنگلہ دیش اس وقت کہنے کو تو آزاد ملک ہے مگر وہ مکمل طور پر بھارتی چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ وہاں کس پارٹی کی حکومت بنے گی اور کیا پالیسی ہو گی، کہا جاتا ہے اسکا فیصلہ دہلی میں ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام میں شیخ مجیب نے بھارت سے مدد طلب کی تھی۔ بھارتی حکمران تو پہلے سے ہی اُس وقت اس کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔ بہر حال 1971ء میں انہیں یہ موقع میسر آ گیا۔ عوامی لیگ کی درخواست پر اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اند را گاندھی نے پاکستان کی فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی فوج کو روانہ کر دیا۔ ساتھ ہی ایک یہ کام بھی کیا کہ مشرقی پاکستان کے عوام جو اس وقت مکمل طور پر پاکستان کے محب وطن شہری تھے پاکستان سے محبت کو دشمنی میں تبدیل کرنے کیلئے اوران کے قتل وغارت گری کرنے کیلئے بنگالیوں پر مبنی مکتی باہنی نامی ایک فورس تیار کی۔ اسے چھاپہ مار جنگ کی تربیت دی گئی اسکے علاوہ اس نے اپنی فوج کے ہزاروں جوانوں کو پاکستانی فوج کی یونیفارم میں مشرقی پاکستان میں عام لوگوں کا خون خرابہ کرنے اور لوٹ مار کرنے کیلئے بھیج دیا۔
بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق 30لاکھ بنگالی مارے گئے حالانکہ یہ سب کچھ بھارتی حکومت نے کیا مگر پاکستانی فوج کو بدنام کیا گیا۔ اس بھارتی خونیں ڈرامے کا نتیجہ وہی نکلا جو بھارتی حکومت اور مجیب الرحمن چاہتے تھے۔ اس سے عام بنگالیوں کو پاکستان سے بدظن کرنے میں بہت مدد ملی ساتھ ہی بنگلہ دیش کے موقف کو تقویت ملی۔ پاکستانی فوج اوربنگالی عوام پاکستان کے حامی تھے اور دہشتگردوں کا مقابلہ کر رہے تھے انہیںـ "رضا کار "کہا گیا۔ اسکے بعد رضا کار ہونا نہ صرف جرم بن گیا بلکہ ایک گالی کی شکل اختیار کر گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ہر سال ہزاروں طلباء یونیورسٹیوں سے فارغ ہو رہے ہیں مگر انہیں نوکریاں نہیں ملتیں۔ نوکریوں کو بھی کوٹے میں بانٹ دیا گیاہے جو کہ 30فیصد ہے اور اسکی آڑمیں اپنے چہیتوں کو نوازا جا رہا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لینے والے ہیروز کی اولادیں حسینہ حکومت کی محافظ ہیں چنانچہ اپنے ورکرز اور مکتی باہنی کی اولاد وں کو اصل فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں ملازمتوں کے کوٹے پر نوجوان طلبہ کا جو احتجاج چند ہفتے قبل شروع ہوا، خاصا منظم اور موثر تھا۔ اس کے باوجود کے ان مظاہروں کو کچلنے کیلئے سرکار کی جانب سے طاقت کا بے رحمانہ استعمال کیا گیا اور ذرائع ابلاغ کی بندش جیسے روایتی حربے بھی کھل کر برتے گئے مگر پر عزم نوجوانوں نے حکومت کی ہر اسکیم کا کامیابی سے توڑ کیا اور مظاہروں میں عوامی شرکت اور جوش و جذبے کو ماند نہیں پڑنے دیا اور اپنی نظر ہدف پر رکھی۔ حالانکہ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ کے وسط میں ڈھاکہ ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ وقتی طور پر معطل کر دیا تھا جس میں ملازمتوں کا کوٹہ بحال کیا گیا تھا مگر یہ بنگلہ دیش کی نئی نسل کورام نہ کر سکا اور انہوں نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کا اعلان کر دیا۔
بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے نے حزب اختلاف کی جماعتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی جو شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان نے 54سال قبل ایک جماعتی حکومت قائم کر کے کیا تھا وہی بیٹی نے کیا جس کی وجہ سے لوگوں میں شدید احتجاج اور شدید رد عمل سامنے آیا۔ شیخ حسینہ نے اگرچہ اپنے ملک کی ترقی کیلئے بڑی اہم خدمات انجام دیں لیکن جمہوری آزادیوں کے معاملے میں ان کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی حسینہ واجد دور میں کریشن میں بھی بڑا اضافہ ہوا جس میں وزیر اعظم کے قریبی لوگ حکومت میں شامل افراد اور انکے لواحقین پیش پیش رہے۔ انکے پورے دور حکومت میں اپوزیشن کو دبا کر رکھا گیا جس کی وجہ سے متعدد ایوزیشن رہنما ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے والے طلبہ کو دہشگرد قرار دیدیا۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنے بیان میں کہا کہ سٹرکوں پر احتجاج کرنے والے طالبعلم نہیں دہشتگرد ہیں جو ملک کو غیر مستحکم کرنے نکلے ہیں۔ آخر وہ وقت آیا جب بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد ملک میں پر تشدد احتجاجی مظاہروں میں سینکڑوں لوگوں کے مارے جانے کے بعد استعفٰی دیکر بھارت فرار ہو گئیں۔ عوام بے قابو ہو گئے اور انہوں نے چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی مظاہرین نے عوامی لیگ کے دفاتر نذر آتش، مجیب الرحمان کا مجسمہ گرا دیا۔ پر تشدد مظاہرے کے نتیجے میں 360سے زائد افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ علاوہ ازیں آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے اعلان کیا کہ اب ملک میں عبوری حکومت بنائی جائے گی۔ قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں امن واپس لائیں گے۔ وقار الزمان نے کہاکہ ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے معیشت متاثر ہوئی ہے بہت سے لوگ مارے گئے ہیں یہ تشدد کو روکنے کا وقت ہے، حسینہ واجد کے فرار ہونے کے بعد صدر شہاب الدین نے بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ تحلیل کر دی ہے۔ عوام کے مطالبے پر ڈاکٹر محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر یونس کی وطن سے محبت، ہوشمندی اورمستقبل سنوارنے کا عزم کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ وہ گرامین بینک کے بانی ہیں اور اس مائیکرو فنانس بینک کے ذریعے لوگوں کو غربت سے نکالنے پر انہیں نوبل انعام دیا گیا تھا۔ آج اس بینک 2625برانچیں ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کا عبرتناک انجام ایک مثال ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں تو مضبوط سے مضبوط حکومت بھی اس سیلاب کے سامنے کچھ نہیں۔ بنگلہ دیش میں عوام کے اٹھ کھڑا ہونے کی وجہ معاشی سے زیادہ سیاسی تھی۔ حکمران کی من مانی لوگوں کیلئے تنگ آمد بجنگ آمدکا سبب بنی۔ یہ ثابت ہو گیا کہ ظلم کی رات چاہے کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو روشنی کی ایک کرن ہی اس میں دراڑ ڈالنے اور بالآخر اس کے خاتمہ کیلئے کافی ہوتی ہے۔