پاک فوج کی جانب سے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی کارروائی نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ فیض حمید کی گرفتاری کے بعد فوج کے احتسابی عمل کو سراہا جا رہا ہے جس کی پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی اور ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے جب آئی ایس آئی کے سربراہ کو سنگین الزامات پر گرفتار کیا گیا ہے۔ جنرل فیض حمید کے خلاف مذکورہ کارروائی ٹاپ سٹی ہائوسنگ سوسائٹی اور ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر عمل میں آئی ہے۔یاد رہے کہ 2016ءمیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد چیف جسٹس (ر)ثاقب نثار نےانکے ساتھ ملکر نواز شریف کو اقامہ پر گھر بھیجنے اور عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2018 ء میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد16 جون 2019 ءکو جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی بنایا گیا اور بطور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید، عمران خان کے دستِ راست سمجھے جاتے تھے جبکہ انہوں نے خاتونِ اول بشریٰ بی بی کو بھی ہاتھ میں لے رکھا تھا اور وہ اُن پر اندھا اعتماد کرتی تھیں۔ اس دوران جنرل فیض حمید، اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں بھی پیش پیش رہے۔ عمران خان کے دور اقتدار کے آخری چند ماہ میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کے معاملے پر عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی کیونکہ عمران خان نہیں چاہتے تھے کہ ان کے دست راست جنرل فیض حمید کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ عمران خان اور فیض حمید کا یہ منصوبہ تھا کہ 2024ءکے انتخابات میں عمران خان کو دوبارہ اقتدارحاصل کرنے کی راہ ہموار کی جائے اور عمران خان، فیض حمید کو آرمی چیف مقرر کریں مگر جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید کو تبدیل کرنے میں کامیاب رہے جنہیں پہلے کور کمانڈر پشاور اور بعد ازاں کور کمانڈر بہاولپور تعینات کیا گیا۔ 2022 میں اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو ٹھہرایا۔
اطلاعات ہیں کہ جنرل فیض حمید کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے رابطوں کے اعتراف کے بعد اب ثاقب نثار کے گرد بھی گھیرا تنگ ہورہا ہے کیونکہ وہ اپنے دور میں جنرل فیض حمید کے سہولت کار سمجھے جاتے تھے اور 2017 میں جب فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کا کیس سپریم کورٹ میں آیا تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ کیس بند کردیا۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم، جسٹس ثاقب نثار پر یہ الزام عائد کرچکے ہیں کہ ثاقب نثار نے ان کے سامنے فون پر ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے پہلے ضمانت نہ دی جائے۔ اس حوالے سے جسٹس شوکت صدیقی نے بھی یہ انکشاف کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید ان کے گھر آئے اور کہا کہ نواز شریف اور مریم نوازکو ضمانت نہ دی جائے، نہیں تو ان کی دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد ثاقب نثار کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اگلی باری ان کی ہے، شاید اس خوف کی وجہ سے وہ 7 اگست کو لندن فرار ہوگئے اور لگتا ہے کہ اب وہ وطن واپس نہ لوٹیں گےلیکن اگر ثاقب نثار کو واپس لایا گیا تو عدلیہ کے بہت سے نام آشکار ہوں گے جن میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں جنہیں ثاقب نثار فون کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کروایا کرتے تھے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ادارے میں احتساب کا عمل شروع کرکے نئی روایت قائم کی ہے اور اس دلیرانہ اقدام پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ان کے اس اقدام سے آنے والے وقت میں ادارے میں Over Ambitious یعنی اپنی ترقی کیلئے اچھے اور برے کی تمیز نہ رکھنے والے افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ میرا یہ یقین ہے کہ شفاف احتساب صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو خود کرپشن سے پاک ہو، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اس کی بہترین مثال ہیں جن کا کردار بے داغ ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ادارے میں احتساب کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے قاضی فائز عیسیٰ کی صورت میں ایک ایماندار چیف جسٹس ملا جو کوئی ذاتی خواہش نہیں رکھتا۔ ایسے میں جب ملک کے طاقتور ادارے فوج نے احتساب کا عمل شروع کرکے ایک مثال قائم کی ہے، اعلیٰ عدلیہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ادارے میں بھی احتساب کا عمل شروع کرکے مثال قائم کرے اور سابق چیف جسٹس اور دیگر وہ ججز، جنہوں نے جنرل باجوہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ایک منتخب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت گرانے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش میں اہم کردار ادا کیا، کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے جس سے نہ صرف ادارے کے وقار میں اضافہ اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد دوبارہ بحال ہوگا بلکہ تاریخ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام بھی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی طرح سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔