• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گذشتہ سے پیوستہ)

میں گزشتہ کئی کالموں میں اس عنوان سے منسلک سندھ کے کئی سلگتے ایشوز کا ذکر کرتا رہا ہوں‘ گزشتہ کالم میں‘ میں نے ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف سندھ کے شدید احتجاج کا ذکر کیاتھا‘ اس کے علاوہ اس کالم میں‘ میں نے اس بات کا بھی ذکر کیا تھا کہ سندھ کو شدید شکایت ہے کہ ایک بار پھر جس طرح پنجاب میں مختلف کینالوں سے اور خاص طور پر پانی کے 91ء والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے سندھ سے زیادہ سے زیادہ پانی نکالا جارہا ہے‘ اس کے نتیجے میں سندھ بھر میں مختلف کینالوں میں پانی کی شدید کمی واقع ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں نہ فقط سندھ کے مختلف علاقے پانی کے قحط کا سامنا کررہے ہیں بلکہ سندھ بھر میں فصل سوکھ رہی ہے‘ اس صورتحال کے خلاف نہ فقط سندھ کی مختلف سیاسی جماعتیں احتجاج کررہی ہیں بلکہ سندھ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گزشتہ کئی دنوں سے عام لوگ بھی احتجاج کررہے ہیں‘ مختلف شہروں اور دیگر مقامات پر دھرنے دے رہے ہیں اور سندھ کے ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک سیاسی کارکن احتجاج کرکے جلوس نکال رہے ہیں اور دھرنے دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں قومی اسمبلی میں سندھ سے تعلق رکھنے والے کئی ایم این ایز نے سندھ میں پانی کی شدید کمی کا ایشو اٹھایا‘ ان میں سندھ سے منتخب ایم این ایز شہلا رضا‘ شاہدہ رحمانی‘ اعجاز جکھرانی‘ رمیش لال اور شبیر بجارانی شامل تھے۔ انہوں نےاس بات پر احتجاج کیا کہ پنجاب میں غیر قانونی طور پر لنک کینالوں کے ذریعے پانی لے جانے کی وجہ سے سندھ میں پانی کی شدید کمی پیدا ہوگئی ہے‘ ان کے کہنے کے مطابق اس طرح پنجاب میں لنک کینالوں کے ذریعے دریائے سندھ سے پانی کی علی الاعلان چوری کی وجہ سے سندھ میں پانی کی کمی 29 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے۔ شہلا رضا نے کہا کہ اس وقت سندھ میں جان بوجھ کر پانی کی شدید کمی پیدا کی جارہی ہے۔ شاہدہ رحمانی نے کہا کہ اس وقت سندھ میں اس حد تک پانی کی کمی ہے کہ کوٹری کے نیچے پینے کے لئے پانی دستیاب نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ سندھ میں اس حد تک پانی کی کمی کیوں پیدا ہوگئی ہے؟ اور پنجاب کیوں پانی کی کمی شکایت نہیں کررہا ؟۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ سجاول میں پینے کیلئے پانی نہیں ہے۔ اعجاز جکھرانی نے کہا کہ سندھ نے 1991 ء کے معاہدے کو نہ چاہتے ہوئے بھی رضا مندی ظاہر کی تو پھر ارسا اس معاہدے پر عمل کیوں نہیں کررہی ؟۔ رمیش لال نے کہا کہ لاڑکانہ‘ قمبر اور شہداد کوٹ میں بھی پینے کیلئے پانی نہیں ہے‘ اس وقت چاول کی فصل کو پانی کی شدید ضرورت ہے مگر پانی دستیاب نہیں۔ شبیر بجارانی نے کہا کہ اس وقت سندھ میں 29 فیصد پانی کی کمی ہے‘ سی جی اور ٹی پی کینال متنازع ہیں‘ ہم مجبوری کے عالم میں 91ء کے معاہدے کا حصہ بنے‘ اس صورتحال کی وجہ سے سندھ میں اس حد تک اشتعال ہے کہ اکثر سندھی اخبارات میں اداریے لکھے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ممتاز سندھی اخبار میں کچھ دن پہلے اس ایشو پر اداریہ لکھا گیا ہے جس کا عنوان سندھ کی قسمت میں سوکھنا اور ڈوبنا کیوں ہے؟۔ اداریہ کی ابتدا ہی اس بات سے شروع کی گئی ہے دکھی اور بدنصیب سندھ کی تکلیفوں کا تو کوئی انت ہی نہیں‘ سندھ کے دو اہم مسائل کی طرف حاکم وقت کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں‘ ایک یہ کہ ایک طرف برسوں سے پنجاب کی طرف سے اوپر ہی اوپر سے سندھ کا پانی چوری کرنے کی وجہ سے سندھ تباہ ہوکر رہ گیا ہے‘ کوٹری سے نیچے ڈائون اسٹریم اپنی خوبصورتی ضائع کر بیٹھی ہے‘ دریا سے منسلک ساری معیشت اب ماضی کا قصہ محسوس ہوتی ہے کیونکہ 1991 ء کے معاہدے پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ اس مرحلے پر میں یہ بات بھی کرتا چلوں کہ 91 ء کا معاہدہ اصل شکل میں سندھ کیلئے قابل قبول تھا‘ اس معاہدے کا اصل ڈرافٹ سندھ کے پانی کے ایک ممتاز ماہر پی کے شاہانی نے تیار کیا تھا‘ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف تھے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق تھے‘ یہ معاہدہ وزرائےاعلیٰ کے اجلاس میں زیر غور آیا تو بڑی بحث کے بعد اس معاہدے کے باقی حصے کو منظور کیا گیا‘ باقی پنجاب کو اس بات پر اعتراض تھا کہ معاہدے کے مطابق اس ایشو کیلئے بنائے جانے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا ہیڈ کوارٹر سندھ کے شہر سکھر میں قائم کرنے کی تجویز دی گئی تھی‘ پنجاب کا سکھر کو ارسا کا ہیڈ کوارٹر بنانے پر اعتراض تھا۔ پنجاب کا موقف تھا کہ ارسا کا ہیڈ کوارٹر پنجاب کے کیپٹل لاہور میں قائم کیا جائے‘ پنجاب کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان میں پانی کی تقسیم کے سلسلے میں لاہور سے بار بار ہندوستان سے رابطےکرنے پڑیں گے۔ اس سلسلے میں ابتدا میں سندھ اور پنجاب کے درمیان بحث ہوئی مگر آخر سندھ نے یہ بات تسلیم کرلی‘ اس طرح وزیر اعظم کی زیر صدارت چاروں صوبوں کے درمیان ارسا کے اس ڈھانچے پر اتفاق ہوا اور ارسا ایکٹ وجود میں آیا‘ بعد میں کچھ عرصے کے بعد ارسا کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد منتقل کیا گیا جب 91 ء معاہدے کا ڈرافٹ تیار ہورہا تھا تو سندھ کا زور تھا کہ کوٹری سے دریا میں چھوڑے جانا والا پانی اتنا ہو ، اس پر کافی بحث ہوئی۔ آخر سندھ کے نمائندوں کو کم Figure کو ملک کے عظیم تر مفاد میں قبول کرنا پڑا مگر اب سندھ کے آبپاشی کے ماہرین اس بات پر مسلسل افسوس ظاہر کررہے ہیں کہ نہ فقط کوٹری سے نیچے دریا کا کم پانی چھوڑا جارہا ہے مگر ایک دو اور مقامات جہاں سے دریا کا پانی سمندر میں جاتا تھا وہاں سے سمندر میں جانے والی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین