• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت زیادہ تر اولیائے کرام اور بزرگانِ دین و ملت کی مرہونِ منت ہے۔ قرونِ اولیٰ سے آج تک جتنے بھی صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ گزرے ہیں، سب کے سب خالص توحید اور اتباع سنت پر سختی سے کاربند رہے اور انہوں نے اس سے سرِ موانحراف نہیں کیا۔ 

اُن کی تمام عمر اشاعت اسلام کے لئے وقف رہی ، وہ ہر حال میں اللہ کا نام اور دین کا پرچم بلند کرتے رہے۔ شاہانِ زمانہ اور امرائے وقت نے ان کے آستانوں اور خانقاہوں پر دستک دی۔وہ اپنی غلط کاریوں اور بے راہ رویوں میں اُن کی راہ نمائی اور ہدایت کے محتاج ہوئے ۔ اس کی بے شمار مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔

برصغیر ہندو پاک میں اشاعت اسلام کیسے ہوئی اور نور توحید کیوں کر پھیلا؟ سندھ اور ملتان 713ء میں فتح ہوئے۔ اس کے بعد ڈھائی تین سو سال تک راجپوت شمالی ہندوستان میں حکومت کرتے رہے اور اس عرصے میں صرف صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کی برکت ، فیض اور مساعی سے دیار ہند میں اسلام کا پرچم سر بلند رہا۔997ء میں امیر سبکتگین نے وفات پائی تو سلطان محمود غزنوی تخت نشین ہوئے اور ان کی فتوحات نے سکندرِ اعظم کی فتوحات کی یاد تازہ کردی۔

یہ زمانہ ہے کہ اولیاء اللہ کے وُرود و ظہور سے برصغیر پاک و ہند میں اشاعت اسلام اور فیوض روحانیت کا دور دورہ شروع ہوا۔ عہد غزنویہ میں پاکستان کے جس شہر نے سب سے زیادہ فروغ حاصل کیا، وہ لاہور تھا ۔ سندھ اور ملتان کے بعد شمالی ہندوستان میں ہدایت کا سرچشمہ سب سے پہلے لاہور میں پُھوٹا، چونکہ سندھ اور ملتان پر قرامطہ قابض ہو گئے تھے اور ان کا اثر کئی صدیوں تک وہاں برقرار رہا، اس لئے لاہور کو جلد ہی ان علاقوں پر فوقیت حاصل ہو گئی۔ 

سب سے پہلے بزرگ جنہوں نے لاہور میں قدم رنجہ فرمایا، وہ شیخ اسماعیل لاہوریؒ تھے۔ خزینۃ الاصفیاءکے مطابق 1005ء میں حضرت شیخ اسماعیلؒ لاہور تشریف لائے۔ ان کی مجلس و عظ میں سامعین کا ہجوم ہوتا تھا اور ہر روز صدہا لوگ مشرف بہ اسلام ہوتے تھے۔

شیخ اسماعیل لاہوری ؒسے بھی زیادہ جس بزرگ نے اشاعتِ اسلام کے سلسلے میں لاہور میں نام پیدا کیا وہ غزنی کے شیخ علی بن عثمان ہجویری ؒہیں، جو داتا گنج بخش ؒ کے نام سے زیادہ مشہور ہوئے ۔ حضرت مخدوم ہجویری المعروف داتا گنج بخش 1009ء کے آس پاس پیدا ہوئے۔

دنیائے اسلام کی سیاحت کے بعد آپ سلطان مسعود ابنِ محمود غزنوی کے عہد کے آخر میں اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ لاہور تشریف لائے۔ جس دن آپ لاہور تشریف لائے، اسی دن سے آپ لاہور کا تعارف اور پہچان بن گئے۔ یہاں آپ نے ایک مسجد تعمیر کی اور اس مسجد میں درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے، بکثرت لوگ آپ کے دستِ حق پرست پر داخل اسلام ہوئے۔

حضرت داتا جب لاہور تشریف لائے تو اس وقت تصوف اپنی تاریخ کے دوسرے دور میں داخل ہو رہا تھا ۔ غیر اسلامی اور غیر شرعی نظریات نے تصوف کی روشن، پاکیزہ تعلیمات کو گدلا دیا تھا۔ تاہم اس سب کے باوجود زہد و تقویٰ کو اب بھی نمایاں مقام حاصل تھا۔ 

شیخ ہجویری داتا صاحب ؒ شریعت اور احکام قرآن و سنت کے سختی سے پابند تھے، آپ نے ان صوفیاء کے بارے میں جو الحاد کے غیر اسلامی اور عجمی نظریات سے تصوف کے چشمہ صافی کو گد لا رہے تھے، فرمایا ’’میں نہیں جانتاکہ کس نے کیا کہا اور کون کیا کرتا ہے، لیکن جو شخص توحید کے خلاف چلتا ہے، اسے دین میں کچھ حاصل نہیں ہوتا اور جب دین جو اصل ہے مضبوط نہ ہو تو تصوف جو اس کی شاخ ہے، کس طرح مفید ہو سکتا ہے۔‘‘

حضرت داتا صاحبؒ نے برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی روشنی پھیلانے، گمراہوں کو راستہ دکھانے اور نومسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں ایسی گراں قدر خدمات انجام دیں کہ ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک آپ کی عظیم شخصیت کے نقش اس علاقے کے مسلمانوں کے دلوں پر ثبت ہیں۔ آپ تمام علوم دین، قرآن و حدیث ، فقہ و تصوف کے جیّد عالم اور باعمل انسان پکے مسلمان تھے۔ 

آپ نے اپنی پوری زند گی احکامِ قرآن و سنت کے مطابق گزار کر یہ واضح اور ثابت کر دکھایا کہ جو چیز لازمی ہے ،وہ صرف پھٹے پرانے کپڑوں کی گدڑی پہن لینا، درویشوں کی سی وضع قطع اختیار کر لینا نہیں، بلکہ اللہ کی یاد دل میں بسی ہونی چاہیے ، اور انسان کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے احکام کے مطابق ہونے چاہیں۔

آپ اپنے مرشد کے حکم ہی سے لاہور تشریف لائے۔ آپ اپنے مرشد کا تذکرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں ’’شیخ ابو الفضل علم تفسیر اور علم حدیث میں بڑے اونچے پایے کے عالم تھے۔ وہ تصوف میں حضرت جنید بغدادی ؒکے پیرو تھے‘‘۔ آپ شریعت و فقہ کا بڑا علم رکھتے تھے۔ آپ نے صوفیائے کرام کو فقہ کی تعلیم بھی دی۔ مسلک فقہ میں آپ حنفی المسلک تھے۔ 

ملحدین اور دیگر بے دین فرقوں کے خلاف آپ نے اپنی زبان سے جہاد فرمایا۔ آپ کو صحابۂ کرامؓ اور خصوصاً حضرات شیخین ابو بکرو عمر رضوان اللہ اجمعین سے بہت محبت و عقیدت تھی۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو آپ تصوف و طریقت کا امام مانتے اور فرماتے تھے کہ تصوف کا آغاز حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے ہوا۔

حضرت داتا گنج بخش ؒکی علمی، اصلاحی، تبلیغی خدمات اسلام کی اشاعتی تاریخ میں سنہری باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب آپ نے لاہور کو اپنا مسکن اور مرکز تبلیغ و اصلاح بنایا تو یہاں علم کی ترویج اور دین کی تبلیغ کا کام بڑے پیمانے پر شروع کر دیا۔ آپ کی شبانہ روز محنت و کوشش سے لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنے لگے۔ 

اس کے ساتھ ہی عام مسلمانوں کی زندگیوں، طرز حیات اور معمولات میں بھی اسلامی رنگ جھلکنے لگا۔ لوگ دین کی طرف مائل ہونے لگے۔ آپ نے تبلیغ دین کے لئے سفر بھی کئے اور ہندوستان کے مختلف دور دراز علاقوں میں جا کر تبلیغ دین فرمائی۔ 

دین پر عمل پیرا ہونے کے حوالے سے آپ ’’لم تقولون مالا تفعلون‘‘۔ کی عملی تفسیر تھے ۔ آپ دل کی پاکیزگی اور باطنی صفائی کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ظاہری وضع قطع درویشوں کی سی بنا لینا اور اعمال کا شریعت کے مطابق نہ ہونا آپ کو ناپسندتھا ۔ شریعت کی پابندی کے سلسلے میں آپ کی احتیاط اور کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے علم دین کے حصول کے لئے چالیس سال سفر کیا ،لیکن اس سفر کے پورے دورانیہ میں ہمیشہ نمازیں باجماعت ادا کیں۔ 

جمعہ کی نماز کے لئے آپ کسی قصبے میں قیام کا اہتمام فرماتے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نماز کی باجماعت ادائیگی کو کتنی اہمیت دیا کرتے تھے۔ عبادت کرنے اور دیگر معمولات کے انجام دینے میں آپ نے جو عملی اور قولی تاکید فرمائی ،اس کا گہرا فہم آپ کو حاصل تھا۔

حضرت علی ہجویری المعروف داتا صاحب ؒ نے طریقت و تصوف پر متعد نثری اور منظوم کتب تصنیف کیں۔کشف المحجوب آپ کی وہ عظیم کتاب ہے کہ جس کی اہمیت و عظمت کا اعتراف صوفیائےکرام ہر دور میں کرتے رہے۔

راہروان سلوک و معرفت کے لئے اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ حضرت نظام الدین محبوب الہٰی چشتی ؒکے اس ارشاد سے لگایئے ،فرمایا حضرت نظام الدین نے کہ ’’جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو، اسے ’’کشف الحجوب ‘‘ سے مرشد مل جائے گا۔ یعنی کسی مرشد و رہنما کی عدم موجودگی میں کشف المحجوب اس کی وہی رہنمائی کرے گی جو ایک پیر اپنے مرید کی کرتا ہے۔

گنج بخش، حضرت علی ہجویریؒ

صاحبِ دل، صاحبِ ایمان، داتا گنج بخشؒ

مُصطفیٰؐ کے دین کی ہیں شان، داتا گنج بخشؒ

اُن کے اوصافِ حمیدہ میں کروں کیسے بیاں

ہیں جہانِ فقر کی پہچان، داتا گنج بخشؒ

ایک عالم ہو رہا ہے جن کے دَر سے فیض یاب

علم و عرفاں کی ہیں ایسی کان، داتا گنج بخشؒ

جانیے زندہ دِلانِ شہر کے دِل کا سکوں

سرزمینِ پاک کی ہیں جان، داتا گنج بخشؒ

پیار سے لب ریز، ہر دِل کے امانت دار ہیں

ہر دلِ مومن میں ہیں مہمان، داتا گنج بخشؒ

خِطۂ لاہور کو ہے ناز اپنے بخت پر

شہرِ درویشاں کے ہیں سلطان، داتا گنج بخشؒ

مُجھ کو بھی ملتی ہے تسکیں آستانے پر ندیمؔ

کس قدر رکھتے ہیں سب کا دھیان ،داتا گنج بخشؒ

(ریاض ندیم نیازی)