محمد عبدالمتعالی نعمان
اسلام کی دینی، ملّی سماجی اورمعاشرتی تاریخ میں اولیائے عظامؒ و صوفیائے کرامؒنے اپنی تعلیمات سے معاشرے کا رخ روحانیت، اصلاح و فلاح اور تعمیر و ترقی کی طرف موڑنے میں زبردست کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک و ہند میں ان کا یہ کردار اور بھی قابل ذکر اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
بلاشبہ، قطب الاقطاب، پیشوائے اہل تصوف، سردار اولیاء حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ المعروف حضرت داتا گنج بخش ؒ ایسے ہی جلیل القدر بزرگ ہیں، جن کی تعلیمات نے ہزار ہا بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست دکھائی، آپ کے علم و فضل اور تعلیمات کا فیض آج تک جاری ہے۔ عوام و خواص میں آپ داتا گنج بخش، خزانے بخشنے والا کے لقب سے مشہور ہوئے۔
آپ کی ولادت افغانستان کے مردم خیز خطے غزنی سے متصل بستی ’’ہجویر‘‘ میں ہوئی۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم غزنی میں حاصل کی اور پھر مزید تعلیم روحانی تجربات اور تزکیۂ نفس کے لیے حجاز مقدس کا سفرکیا اور شام و فلسطین کے سفر کے دوران اپنا پیرو مرشد ’’شیخ ابو الفضل محمد بن حسن الختلی ؒ کو بنایا، آپؒ شیخ محمد بن الختلیؒ کے مرید ہیں۔
اس کے بعد آپ نے شام و فلسطین، عراق،فارس ، خراسان اور ترکستان وغیرہ کا بھی دورہ کیا جس کے دوران آپؒ نے سیکڑوں مشائخ ، صوفیائے کرامؒ اور علماء سے ملاقاتیں کیں اور کسب فیض کیا۔ صرف خراسان میں جن مشائخ سے آپ ملے، ان کی تعداد تین سوہے۔ ان کے بارے میں آپؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے خراسان میں تین سو اشخاص ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک دینی و روحانی عظمت میں سارے جہاں کے لیے کافی ہے۔
حضرت علی ہجویری ؒ نے علم دین اور علم معرفت وسلوک میں جسے کامل پایا، اس سے فیض حاصل کیا۔ آپ کے بہت سے اساتذہ کرام ہیں جن میں (1)شیخ ابوالفضل ختلیؒ(ii)شیخ ابو القاسم عبدالکریمؒ بن ہوازن القشیری ؒ(iii)شیخ ابو القاسم بن علی عبداللہ الگر گانی ؒ (iv)، شیخ ابو العباس اشقانی ؒ(v)شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح ؒ(vi)ابو عبد اللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامیؒ(vii)ابو سعید فضل بن محمد ؒ(viii)ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان زیادہ معروف ہیں۔
آپ اپنے مرشد کے حکم سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین مسعود کے زمانے میں لاہور تشریف لائے۔ آپؒ نے لاہور شہر کے باہر دریائے راوی کے کنارے اپنا مسکن بنایا اور مسجد خانقاہ اور مدرسے کی بنیاد رکھی۔
آپ نے تقریباً 34سال تک لاہور اور پنجاب میں تبلیغ اسلام کے لیے کام کیا ۔تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے آپ نے برصغیر کے دوسرے علاقوں کا بھی سفر کیا، لیکن آپ ؒ کا مقام و مرکز لاہور ہی رہا۔
لاہور کو غزنی کی سلطنت میں نہایت اہم مقام حاصل تھا، لیکن یہاں تبلیغ دین کا کام انجام دینا بے حد مشکل کام تھا، کیوںکہ یہاں ہندوئوں،برہمنوں اور جوگیوں کا راج تھا، حضرت ہجویریؒ سے قبل بہت سے بزرگ ان کے مقابلے میں خاطر خواہ کامیاب نہ ہو سکے تھے، ان خطرات کی بناء پر اشاعت اسلام کا سفر رکا ہوا تھا۔ ان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے حضرت داتا صاحب کی لاہور آمد ہوئی۔
آپ کی تبلیغ تاریخ اسلام میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، کیوںکہ آپ کی آمد سے کثیر تعداد میں نہ صرف بتوں کے پجاریوں نے اسلام قبول کیا، بلکہ خواص اور ہندو برہمن بھی تیزی سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ لاہور آمد پر آپؒ نے سب سے پہلے جو کام کیا، وہ مسجد و مدرسے کی تعمیر تھی، اس کے ساتھ ساتھ اپنے مریدین اور ساتھیوں کے لیے خانقاہ تعمیر کی اور درس و تدریس کا آغاز کیا۔اس وقت لاہور میں تقریباً تمام تر مسلمان علماء اور بااثر طبقے کے بچے آپ کے یہاں پڑھتے تھے۔
آپ نے جب محسوس کیا کہ حکمرانوں کے ساتھ تعلقات اور رابطے کا عوام الناس اور دین کی نشرو اشاعت پر اچھا اثر نہیں پڑ رہا تو آپ نے یہ سلسلہ موقوف کر دیا اور صرف عوام کے بچوں کو درس و تدریس دینے کا کام جاری رکھا۔ آپ کے اس اقدام سے معاشرتی اصلاح اور دین کی ترویج و اشاعت میں روز افزوں اضافہ ہوا اور عوام و خواص میں آپ مقبول ہوئے۔
حضرت علی ہجویری ؒ کے اعلیٰ اخلاق حمیدہ اور آپؒ کی فہم و فراست ہی تھی کہ نا صرف ہندوؤں کے بااثر سیاسی طبقے نے اسلام قبول کرنا شروع کیا، بلکہ دیگر لوگ بھی بہت سرعت کے ساتھ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور کی نصف آبادی نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ جس طرح آپؒ کو غیر مسلموں میں اسلام پھیلانے کی فکر تھی۔
اس سے زیادہ آپ کو اس بات کی فکر لاحق تھی کہ تصوف کے نام پر وہ غیر اسلامی رسوم و رواج اور خود ساختہ غلط نظریات جو علماء و صوفیائے کرام اور دیگر مسلمانوں میں سرایت کر رہے ہیں، انہیں کس طرح دور کیا جائے؟ لہٰذا آپ نے رائج غلط نظریات کو دور کرنے کی سعی کی اور تصوف کی تعلیمات کو ان کے سادہ اور پرانے اسلوب پر لے آئے۔ اسلامی تعلیمات کی سادگی کو برقرار رکھا۔خود بھی ان پر سختی سے عمل پیرا رہے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی۔
آپ کی اہم اور گراں قدر تصنیف’’کشف المحجوب، قرآن و سنت کی تعلیمات پر مبنی تصوف کا مثالی دستور اور حکمت ومعرفت کی روشن قندیل ہے۔ ‘‘جو قلب انسانی کو متاثر کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے۔آپ کی تعلیمات کا نچوڑ اس میں موجود ہے۔
آپ نے نہایت اختصار کے ساتھ شریعت مطہرہ کے مسائل کو اس میں واضح کیا ہے۔ کیوںکہ شریعت پر عمل کے بغیر کوئی عالم صحیح معنوں میں عالم نہیں بن سکتا اور کوئی صوفی صحیح معنوں میں صوفی نہیں بن سکتا،جب تک وہ قرآن و سنت اور شریعت پر عامل نہ ہو۔
داتا گنج بخش ؒ کے علم و فضل،حسن سلوک، مذہبی رواداری ،خدمت خلق اور سماجی خدمات نے خطے میں ایک انقلاب برپا کیا، لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوئے۔ اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ آپ کا نام ہندوستان کے علاوہ عراق و عجم، اور خراسان وایران بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہوا، اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ نے اپنی قابل قدر تصنیفات، اپنے علم و فضل اپنی عملی زندگی اور اپنے اعلیٰ ٰ اخلاق حمیدہ سے ایک عالم پر اپنا سکہ بٹھایا۔
ایک طویل عرصے تک اسلام کی خدمت انجام دینے کے بعدآپ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی وفات کے 8سال بعد غزنی کے سلطان ابراہیم نے آپ ؒ کاعالی شان مقبرہ تعمیر کیا جو وقتاً فوقتاً بعد میں نئے سرے سے تعمیر ہوتا رہا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اور حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ جیسے اولیاء اور قطب المشائخ یہاں آ کر چلہ کش رہے۔ اس سے حضرت علی ہجویری ؒ کا عالی مرتبت ہونا صاف ظاہر ہے۔جب حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے اجمیر کو مرکز بنا کر ہندوستان میں اسلامی تعلیمات کو پھیلانے کا ارادہ کیا تو آپ ؒ اجمیر جانے سے پہلے حضرت علی ہجویری ؒ کے مزار مبارک سے متصل حجرے میں چالیس روز تک مصروف عبادت و اعتکاف رہے۔ اس کے نتیجے میں آپؒ نے اس قدر روحانی فیض حاصل کیا کہ بوقت رخصت زباں زد خاص و عام یہ شعر کہا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیرا کامل، کاملاں را رہنما