• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلطان محمد فاتح

جہانِ تصوف کے نابغہ ٔ روزگار، دبستانِ تصوف کے تاج دار،فارسی زبان میں تصوف کے اسرار و رموز پر شہرۂ آفاق تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘کے مولف، برصغیرمیں دین کے عظیم مُبلّغ، مشہورصُوفی بُزرگ، سُلطانِ طریقت، حضرت سیّد علی ہجویریؒ کی ذاتِ گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

اولیائے پاک و ہند میں آپ کا شمار رئیس الاولیاء و الصّوفیاء میں ہوتا ہے۔ آپ کا اسمِ گرامی علی، ابوالحسن کنیت اور’’گنج بخش‘‘ لقب ہے۔ آپ کو علی ہجویری یا جلابی کہا جاتاہے، حسنی سیّد ہیں۔ سلسلۂ نسب نو واسطوں سے دامادِ مصطفیؐ، شیرِ خدا، سیّدنا علیِ مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ سے جاملتا ہے۔آپ کا خاندان علم و تقویٰ سے متّصف تھا۔

حضرت سیّد علی ہجویریؒ 400ھ مطابق 1009ء میں سلطان محمود غزنوی کے عہدِ حکومت میں دارالسّلطنت غزنہ (غزنی) میں پیدا ہوئے۔ حضرت سیّد علی ہجویریؒ 431ھ تک غزنہ ہی میں مقیم رہے۔ آپ نے اپنی نسبت خود ’’الجلّابی، الغزنوی، الہجویری‘‘ تحریر فرمائی ہے۔ ’’جلاّب‘‘ اور’’ہجویر‘‘ غزنہ (غزنی) کے دو محلّوں کے نام ہیں، ایک محلّے سے آپ دوسرے محلّے منتقل ہوتے تھے۔ آپ کی والدہ کی قبر غزنی میں آپ کے ماموں تاج الاولیاءؒ کے مزار سے متّصل ہے، آپ کا تمام خاندان زُہد و تقویٰ کے حوالے سے مشہور تھا۔ (دارا شکوہ/ سفینۃ الاولیاء، ص 209)

آپ مسلکِ اہلِ سنّت سے تعلّق رکھتے تھے اور فقہی مکاتبِ فکر میں حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کے مسلک (حنفی) سے وابستہ تھے۔ مشرب (مسلکِ تصوّف) کے لحاظ سے آپ سیّدالطّائفہ حضرت جنید بغدادیؒ کے پیرو تھے۔ ’’گنج بخش‘‘کے لقب سے مشہور ہوئے اور آج بھی اسی سے پہچانے جاتے ہیں۔

آپ نے اپنی تصنیف ’’کشف الاسرار‘‘ میں لکھا ہے۔ ’’اے علی، تُرا خلق می گوید گنج بخش، دانہ پیش خود نہ داری۔‘‘ (کشف الاسرار،ص 5، مطبوعہ لاہور) ’’اے علی، تجھے خلقِ خدا گنج بخش کہتی ہے اور تُو ایک دانہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتا۔‘‘مزید لکھتے ہیں: ’’اس بات کا خیال ہرگز دل میں نہ لا، گنج بخش یعنی خزانہ بخشنے پر قادر تو وہی ذات ہے، اُس کے ساتھ شرک نہ کرنا، ورنہ تیری زندگی تباہ ہوجائے گی، بے شک وہ اکیلا خدا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘

حضرت علی ہجویریؒ کے لقب ’’گنج بخش‘‘ کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ آپ کی طبیعت میں سخاوت و فیّاضی کا جذبہ غیر معمولی تھا، کہ خلقِ خدا نے آپ کو نہایت مہربان اور کریم النّفس شخص پاکر ’’گنج بخش‘‘ کا لقب عطا کیا۔کشف الاسرار‘‘ میں اپنے متعلق یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی ایک بُزرگ حضرت حسّام الدینؒ سے ملاقات ہوئی، یہ اپنے وقت کے ولی کامل تھے، آپ اُن کی پارسائی اور زُہد و تقویٰ سے بہت متاثر ہُوئے اور اُن سے اپنی رُوحانی ترقّی کے لیے اللہ کے حضور دُعا کی التجا کی۔ 

حضرت حسّام الدینؒ نے فرمایا: ’’اے علی، رُوحانی ترقّی چاہتے ہو تو ہر وقت لوگوں کی دل جوئی اور تسکینِ قلب کا سامان بہم پہنچاتے رہو، تاکہ لوگ اپنا غم بھول جائیں، اورکبھی کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائو،اپنا حاصل کیا ہوا علم ضائع نہ کرو، اور ہر دم اللہ سے لو لگائے رکھو۔‘‘ یہ سطور اس امر کی غماز ہیں کہ حضرت ہجویریؒ کے دل میں سخاوت و فیاضی کا جذبہ غیر معمولی تھا اور غالباً آپ اسی کریمانہ طرزِ عمل کے باعث خلقِ خدا میں’’گنج بخش‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔

’’گنج بخش‘‘ کا لقب درحقیقت آپ ہی کو زیبا ہےکہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں علوم و معارف اور حکمت و دانائی کے خزینے خلقِ خدا میں تقسیم فرمائے۔’’کشف المحجوب‘‘ جیسا بے مثل خزینہ جسے بجا طور پر تصوف کا دستور العمل کہا جاسکتا ہے۔اس سے آج اہل علم فیض پا رہے ہیں۔ ’’کشف المحجوب‘‘ میں آپ کے سفر کی یادداشتیں ملتی ہیں۔ 

اس حوالے سے یہ کتاب گیارہویں صدی عیسوی کی اسلامی دنیا کے مذہبی، علمی اور ثقافتی حالات کے مطالعے کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ آپ کی زندگی ایک ایسے دَور میں بسر ہوئی،جب کہ کرّۂ ارض کے کم و بیش ایک تہائی حصّے پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔

تبلیغی مقاصد کے تحت سب سے پہلے لاہور آنے والے بُزرگ حضرت شیخ اسماعیل بخاریؒ ہیں، جنہوں نے لاہور میں اشاعتِ اسلام اور تبلیغ و ترویجِ دِین کے لیے بے پناہ کوششیں کیں۔ آپ کے وعظ کی تاثیر کا یہ عالم تھاکہ وعظ کے اختتام پرکثرت سے لوگ دولتِ اسلام سے مشرّف ہوتے۔حضرت ہجویریؒ جس وقت لاہور تشریف لائے،اُس وقت غزنی اور لاہور میں سلطان مسعود غزنوی کی حکومت کے آخری ایام تھے۔

حضرت سیّد علی ہجویریؒ معروف قول کے مطابق 431ھ مطابق1039ء میں ہندوستان تشریف لائے۔آپؒ حجۃ الاسلام امام غزالیؒ کے ہم عصر تھے۔ قرونِ وسطیٰ کی صُوفیانہ فکر میں حضرت ہجویریؒ نے بنیادی طور پر امام غزالیؒ سے مِلتا جُلتا کردار ادا کیا ہے۔ آپ کی تبلیغ و تعلیم کے ذریعے قلیل ترین مدّت میں ہزاروں لوگ عالم بن گئے۔ وہ لوگ جو فسق و فجور اور اَخلاقی فسادکی زنجیروں میں عرصۂ دراز سے جکڑے ہوئے تھے، اس مسیحا نفس کی چارہ گری سے رذائلِ اَخلاق سے آزاد ہونے لگے۔

حضرت سیّد علی ہجویریؒ نے تصوّف اور روحانی تعلیمات کے حوالے سے متعدد تصنیفات رقم کیں، گو کہ اُن کی بیش تر گراں قدر تصنیفات امتدادِ زمانہ کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہ سکیں۔روسی مستشرق زوکو فسکی نے مقدمۂ ’’کشف المحجوب‘‘ مطبوعہ ایران 1330ھ میں حضرت ہجویریؒ کی مندرجہ ذیل نو تصنیفات ذکر کی ہیں، جو آپ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ کے علاوہ ہیں۔(1) کتاب الفناء والبقاء (2) اسرار الخلق و المؤنات (3) دیوان الشّعر (4) الایمان (5) کتاب البیان لاھل العیان (6) نحوالقلوب (7) الرّعایۃ بحقوق اللہ تعالیٰ (8) منہاج الدّین (9) فرقِ فِرق۔

’’کشف المحجوب‘‘ فارسی زبان میں تصوّف اور اُس کے اسرار و رموز پر پہلی کتاب ہے، جس کا زمانۂ تالیف غالباً 440ھ / 1048ء کے بعد کا ہے۔اسے تصوّف پر استناد اور قدیم ترین کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔’’کشف المحجوب‘‘ پاک و ہند میں اسلامی تصوّف کے موضوع پر فارسی زبان کی بالکل اسی طرح پہلی کتاب تسلیم کی جاتی ہے، جس طرح دنیائے اسلام میں حضرت جنید بغدادیؒ کا رسالہ ’’القصد الیٰ اللہ‘‘ عربی زبان میں تصوّف کی پہلی کتاب شمار کی جاتی ہے۔

دارا شکوہ ’’سفینۃ الاولیاء‘‘ میں لکھتا ہے: ’’تصوّف کی کتابوں میں ایسی گراں مایہ کتاب اس کے علاوہ فارسی میں نہیں لکھی گئی۔‘‘’’کشف المحجوب‘‘ کو حضرت سیّد علی ہجویریؒ کی تعلیمات کا واحد اور قابلِ اعتماد ماخذ تصوّرکیا جاتا ہے۔ ہماری صُوفیانہ اور فِکری روایت میں اس کتاب کو نہایت اہم مقام حاصل ہے۔

آپ نے اپنی تعلیمات اور علمی فیضان سے اُس دَور میں فکری، اصلاحی اور اَخلاقی انقلاب برپا کیا، جب تصوّف میں بعض نئی غیر اسلامی بدعات جڑ پکڑ رہی تھیں،آپ شروع ہی سے دینی اصولوں پر شدّت سے عامل رہے۔ آپ نے اُن فرقوںکو جنہوں نے تصوّف میں بے راہ روی اختیار کی تھی، مُلحد اور لعنتی کہا ہے۔ آپ نے’’کشف المحجوب‘‘ میں لکھا: ’’جو شخص توحید کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو،اُس کا دینِ اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے۔ چوں کہ دین اصل ہے۔ وہ تصوّف جو اس کا نتیجہ اور اس سے مشتق نہ ہو، مستحکم نہیں ہوسکتا۔‘‘

آپ صُوفیوں کی ظاہری رسوم سے نفرت کرتے تھے اور ان ظاہری رسوم کو معصیت اور ریا سے تعبیر فرماتے تھے اور ظاہر پرست صُوفیوں کی صحبت کو تہمت کا مقام دیتے تھے۔ (بزمِ صُوفیہ،ص 7)کشف المحجوب کے باب سوم میں حضرت علی ہجویریؒ نے حضرت جنید بغدادیؒ کے اس قول کی تائید کی ہے کہ تصوّف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے، جن سے آٹھ پیغمبروں کی پیروی ہوتی ہے۔(1) تصوّف میں سخاوت حضرت ابراہیمؑ کی سی ہو۔ (2) رضا حضرت اسماعیلؑ کی سی ہو۔(3) صبر حضرت ایّوبؑ کا سا ہو۔(4) اشارات حضرت زکریاؑ کے سے ہوں۔(5) غربت حضرت یحییٰؑ کی سی ہو۔(6) سیاحت حضرت عیسیٰؑ کی سی ہو۔(7) لباس حضرت موسیٰؑ کا سا ہو۔(8) فَقر حضرت محمد مصطفی ﷺ کا سا ہو۔

سیّدنا حضرت علی ہجویریؒ کی تاریخِ وفات کے بارے میں تذکرہ نگاروں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کے احاطۂ مزار میں دو جگہ جامی لاہوری کے دو قطعاتِ تاریخ میں 465ھ (1072ء) ہی آپ کی تاریخِ وفات درج ہے اور یہی تاریخ اکثر تذکرہ نگاروں کی رائے میں درست قرار پاتی ہے۔ آپ کا مزارِ پُر انوار زیارت گاہِ خاص وعام اور مرجعِ خلائق ہے۔