برطانیہ کے نئے وزیراعظم کیئر اسٹارمر کو حکومت سنبھالے ابھی کچھ ہی ہفتے گزرے تھے کہ اُن کی حکومت کو اُس وقت سخت امتحان سے گزرنا پڑا جب برطانیہ میں نسل پرستی پر مبنی فسادات پھوٹ پڑے۔ یہ فسادات برطانیہ کے ساحلی شہر سائوتھ پورٹ میں چاقوئوں کے حملے میں 3کمسن بچیوں کے بہیمانہ قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایک غلط خبر کے باعث شروع ہوئے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ بچیوں کے قتل میں ملوث حملہ آور ایک مسلمان پناہ گزین تھاجو غیر قانونی طریقے سے برطانیہ پہنچا تھا۔ اِس جھوٹی خبر کے وائرل ہوتے ہی برطانیہ میں مسلمانوں اور دیگر تارکین وطن کے خلاف مظاہرے اور اُن پر حملے شروع ہو گئے۔ بعد ازاں پولیس کی تحقیقات کے بعد یہ انکشاف سامنے آیا کہ بچیوں کے قتل کے واقعہ کی جھوٹی خبر کے نتیجے میں فسادات پھیلانے میں اہم کردار ایک نیوز ویب سائٹ چینل 3نائو نے ادا کیا ،جس کے تانے بانے پاکستان سے بھی جڑے تھے اور چینل سے منسلک فرحان آصف نامی ایک شخص کی لاہور سے گرفتاری عمل میں آئی۔ فرحان پر الزام تھا کہ اس نے 29جولائی کو ہونے والے واقعے کی حقائق کے برعکس غلط خبر چینل 3نائو ویب سائٹ پر پوسٹ کی جس میں دعویٰ کیا کہ بچیوں کے قتل میں ملوث شخص ایک مسلمان غیر قانونی تارکین وطن 17سالہ علی الشکاتی تھا جو غیر قانونی طور پر برطانیہ آیا تھا۔
یہ خبر برطانیہ سمیت پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی جس کا برطانیہ میں دائیں بازو کے نسل پرست انتہا پسندوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ آرائی اور فسادات برپا کردیئے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب برطانیہ میں نسل پرستی کی بنیاد پر فسادات ہوئے۔ 23سال قبل مئی 2001ءمیں بھی شمالی برطانیہ میں نسل پرستی کی بنیاد پر ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جو گریٹر مانچسٹر کے علاقے سے بڑھتے ہوئے بریڈ فورڈ، لیڈز اور برنلے تک پھیل گئے اور شرپسندوں نے مسلمانوں اور تارکین وطن کی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔
ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ میں اسلاموفوبیا میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یورپ جو طویل عرصے سے لبرل ازم، رواداری اور جمہوریت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اگر دائیں بازو کی جماعتوں کا یورپ پر اسی طرح حاوی ہونے کا عمل جاری رہا تو یہ خطہ اپنی حیثیت کھو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا اسلامو فوبیا یہ حقیقت نہیں چھپاسکتا کہ نفرت کی سیاست برطانوی معاشرے میں اب بھی مضبوط ہے جس کا اندازہ حالیہ برطانوی انتخابات میں انتہا پسند ریفارم پارٹی کے 14.3فیصد ووٹوں سے لگایا جا سکتا ہے اور یہ پارٹی انتخابات میں تیسرے نمبر پر آئی جبکہ فرانس، نیدر لینڈز، جرمنی اور اٹلی میں ہونے والے انتخابات میں بھی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں نے اسلامو فوبیا، غیر ملکیوں کے خلاف جذبات اور نسل پرستی کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی۔ برطانیہ اور یورپ میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی لہر نے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، مسلم کمیونٹی خوف و ہراس کاشکار ہے اور مسلمان خواتین حجاب پہن کر گھر سے نکلنے سے گھبرا رہی ہیں۔
گوکہ برطانوی حکومت کی جانب سے حالیہ فسادات میں ملوث قانون شکنوں کو فوری سزائیں دینا خوش آئند ہے لیکن مسئلے کی جڑ تک پہنچنے اور اسے حل کرنے کیلئے یہ کافی نہیں۔ برطانوی حکومت یہ تسلیم کرے کہ ملک میں اسلامو فوبیا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا کا غلط اور ناجائز استعمال نہ صرف برطانیہ اور پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مسائل کھڑے کر رہا ہے، لوگ اِس پر چلنے والی خبروں پر بغیر تصدیق یقین کر لیتے ہیں اور کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔ برطانیہ میں ہونے والے حالیہ فسادات کا ذمہ دار بھی سوشل میڈیا ہے جس نے جھوٹ اور مسلم مخالف پروپیگنڈے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں مساجد اور مسلمان تارکین وطن کی رہائش گاہوں پر حملے کئے گئے۔
آج جب برطانیہ، سوشل میڈیا پر فیک نیوز سے متاثر ہوا تو برطانوی حکومت کو یہ انداز ہ ہوا کہ فیک نیوز کس طرح ملک میں افراتفری اور فسادات پھیلانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ پاکستان، برطانیہ سے کئی بار مطالبہ کرچکا ہے کہ برطانوی حکومت اپنے ملک میں بیٹھے پاکستان مخالف پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف فیک نیوز پھیلانے والوں کو روکے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرے۔ اطلاعات ہیں کہ برطانوی حکومت، پاکستان سے لاہور میں گرفتار کئے گئے ملزم فرحان کی حوالگی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پاکستان کیلئے یہ اچھا موقع ہے کہ وہ ملزم کی حوالگی کو برطانیہ میں پاکستان مخالف مہم چلانے والے عادل راجہ اور اس کے ساتھی شہزاد اکبر کی پاکستان حوالگی سے مشروط کرے جو برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں ڈیجیٹل دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق غلط خبر چلانے اور دانستہ یا نادانستہ طور پر غلط معلومات پھیلانے والے شرپسندوں کی بھی نشاندہی کی جائے اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی شرپسند اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے سوشل میڈیا کا غلط استعمال نہ کر سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)