پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ڈیپازٹ پروٹیکشن بل پر غور کیا گیا۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک عنایت حسین نے اجلاس کو بتایا کہ ڈیپازٹ پروٹیکشن قانون کے تحت بینک کے تمام صارفین کو 5 لاکھ روپے فی اکاؤنٹ تک تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ڈیپازٹ پر تحفظ ڈھائی لاکھ روپے تک تھا، اب بینک صارفین کو 5 لاکھ روپے فی اکاؤنٹ تحفظ فراہم کیا جائے گا، بینکوں کے کلاسیفائیڈ لونز کی پروٹیکشن 100 فیصد سے زائد ہے۔
سلیم مانڈوی والا نے سوال کیا کہ کیا اس قانون میں میکرو فنانس بینکوں کو شامل کیا گیا ہے؟
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک عنایت حسین نے بتایا کہ ہماری خواہش ہے کہ میکرو فنانس بینکس کو بھی ڈیپازٹ پروٹیکشن قانون کے تحت لائیں لیکن میکرو فنانس بینکوں میں کچھ عمومی مسائل ہیں، جنہیں حل کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے شرائط رکھی ہیں، کمرشل بینکوں کی طرح میکرو فنانس بینکوں کا بھی فریم ورک ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے سوال کیا کہ یہ ساری چیزیں آئی ایم ایف ہی ہمیں کیوں بتاتا ہے، ہم خود کیوں نہیں کرتے؟
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک عنایت حسین نے جواب دیا کہ گورنر عشرت حسین کے دور میں اس پر سوچا گیا تاہم اس وقت آئی ایم ایف نہیں مانا۔
دریں اثناء دورانِ اجلاس سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ میں نے مختلف ادوار میں کی گئی قانون سازی کی فہرست بنائی ہے، فاروق ایچ نائیک کے بطور چیئرمین سینیٹ بھی قانون ایوان میں آئے، اس سے ثابت ہوا کہ نگراں دور میں قانون سازی سینیٹ میں لائی گئی، فاروق ایچ نائیک کے اعتراض پر حکومت نے بل دوبارہ ایوان میں پیش کیا۔