سندھ ہائی کورٹ میں ایم نائن موٹر وے کے اطراف میں رہائشیوں، ہوٹلز، پیٹرول پمپس کو رسائی نہ دینے کے کیس کی سماعت ہوئی۔
این ایچ اے اور دیگر کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی ہے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے استفسار کیا کہ ایم نائن موٹر وے سپر ہائی وے ہے، سندھ حکومت نے کس معاہدےکے تحت زمین این ایچ اے کو دی کوئی معاہدہ ہواہے؟
اُنہوں نے مزید کہا کہ سڑکیں اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، سپر ہائی وے پر ریسٹورنٹس اور پیٹرول پمپس پہلے سے موجود تھے، سپر ہائی وے کے قوانین مختلف تھے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان زمین کا تنازع الگ ہے، سڑک تک رسائی نہیں روکی جاسکتی لیکن باڑ لگا کر رسائی روک دی گئی ہے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے استفسار کیا کہ سپرہائی وے کو موٹر وے میں تبدیل کرنے سے یہ مسئلہ بنا ہے، این ایچ اے اپنے معیار کے مطابق نئی موٹر وے کیوں نہیں بنا لیتا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ دو شہروں کے درمیان شہر سے باہر ٹول پلازہ بنانا چاہیے، ایم نائن کا زیرو پوائنٹ شہر کے اندر موجود ہے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کا تنازع کونسل آف کمپلین میں طے ہونا چاہیے یا پھر موٹر وے کو دوبارہ سپر ہائی وے میں تبدیل کردیا جائے، جی ٹی روڈ ایک لائن بڑھا کر موٹر وے میں تبدیل کر دیا جاتا تو شہروں کا کیا حال ہوتا، کیا راستے میں آنے والے شہروں کو بلڈوز کر دیا جاتا۔
این ایچ اے کے وکیل نے کہا کہ اوور ہیڈ برجز اور پلوں کے ذریعے شہریوں کو سہولتیں فراہم کی ہیں۔
یہ بات سن کر جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ ہر سڑک پر ٹول بوتھ بنا دیے ہیں عوام کو فری روڈ کہیں نہیں ملتا۔
این ایچ اے کے وکیل نے کہا کہ ایم نائن موٹر وے پر 40 ارب روپے کی نجی سرمایہ کاری ہوئی ہے، وفاقی حکومت موٹر وے بنانے کے لیے صرف زمین فراہم کرتی ہے۔
جس پر جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ کوئی نیا پل نہیں بنایا بس سڑک پر سڑک بنا کر 40 ارب روپے خرچ کر دیے ہیں۔
این ایچ اے کے وکیل نے کہا کہ کراچی اور حیدر آباد کے درمیان متبادل موٹر وے کا منصوبہ زیرِ غور ہے، چینی اور پاکستانی حکّام منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ ہر صوبے میں موٹر ویز ہیں صرف سندھ میں نہیں ہیں، 80 فیصد بجٹ لنک روڈ پر خرچ کر دیا جاتا ہے، حیدر آباد میر پور خاص سڑک پر سفر مفت تھا اسے ایکسپریس وے بنا کر ٹول وصولی شروع کر دی گئی، این ایچ اے کے چیئرمین نے 5 سال پہلے بیانِ حلفی جمع کروایا تھا کہ پرانا ٹول ختم کر کے نیا بنایا جائے گا۔
عدالت نے آخر میں کہا کہ فریقین کے وکلاء کے دلائل سن لیے ہیں لیکن درخواستوں پر کوئی مناسب حکم نامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔