• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوروز خان زرکزئی کو بلوچستان والے ’بابو نوریز‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، یہ صاحب کچھ شورش پسند واقع ہوئے تھے، پہلے قلات کے حقوق کے لیے انگریز سے لڑتے رہے، انگریز گئے تو نئے حاکموں سے بِھڑ گئے۔ جب 1955ءمیں ون یونٹ بنا تو بلوچستان کو اپنے حقوق و نمائندگی میں مزید کمی کی شکایت ہوئی، نوروز خان پھر لگ بھگ ایک ہزار ساتھیوں سمیت پہاڑوں پر چڑھ گئے اور مزید شدت سے پاکستانی حکام سے برسرِ پیکار ہو گئے۔یہ تو ہو گیا پس منظر، اب سنیے اصل قصہ۔

قبائلی زعماء اور حکومتِ پاکستان کے مذاکرات کے بعد 1960ءمیں جنگ بندی کا راستہ نکال لیا گیا۔ حکومت نے وعدہ کیا کہ ون یونٹ ختم کر دیا جائے گا اور نوروز خان اور ان کے تمام ساتھیوں کو عام معافی دے دی جائے گی۔ مگر نوروز خان نے ان وعدوں پر اعتبار نہ کیا اور ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ اب آخری کوشش کے طور پر حکومت پاکستان نے ایک جرگہ نوروز خان کے پاس بھیجا، جرگے نے قرآن مجید کو ضامن بنایا اور حکومت پاکستان کا عام معافی کا وعدہ شد و مد سے دہرایا، آخرِ کار نوروز خان نے اعتبار کر لیا اور اپنے ساتھیوں سمیت قرآن کی چھائوں میں پہاڑ سے اتر آیا۔ وائے، نوروز خان کے ساتھ بد عہدی کی گئی، حکومت پاکستان نے قرآن کو گواہ بنا کر جھوٹ بولا۔ نوروز خان اور اس کے 160ساتھیوں پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ نوروز خان کے بیٹے سمیت سات افراد کو پھانسی دے دی گئی۔ مورخ ڈاکٹر شاہ محمد مری روایت کرتے ہیں کہ جب آخری دیدار کے لیے بیٹے کی لاش نوروز خان کے سامنے لائی گئی تو اُس نے بیٹے کی مونچھوں کو تائو دیا، اور اپنے قبیلے کو پیغام بھجوایا کہ میرے بیٹے کی موت کا سوگ نہ منایا جائے بلکہ جشن منایا جائے جیسے شادی بیاہ کی خوشی منائی جاتی ہے، کیوں کہ میرے بیٹے نے ایک بڑے مقصد کے لیے جان دی ہے۔ بعد ازاں، 95سال کی عمر میں، نوروز خان کا جیل میں ہی انتقال ہو گیا۔ نوروز بابو آج بلوچستان میں ایک دیومالائی کردار سمجھے جاتے ہیں۔

اکبر بگٹی کو 26اگست 2006ءکو قتل کیا گیا، ان کے قتل سے کچھ دن پہلے پرویز مشرف نے بلوچ قوم پسندوں کو مخاطب کر تے ہوئے کہا تھا کہ یہ ستّر کی دہائی نہیں ہے، آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ آپ کو کس طرح قتل کیا گیا ہے، اور پھر ایسا ہی ہوا، ایک آپریشن کے دوران اکبر بگٹی جس غار میں پناہ لیے ہوئے تھے اُس کی چھت گر گئی جس سے وہ اور ان کے ساتھی ہلاک ہو گئے۔ آج اکبر بگٹی کا نام بھی بلوچی لوک گیتوں میں شامل ہو چکا ہے۔ اپریل 2009میں بی این ایم کے صدر غلام محمد بلوچ اور دو قوم پرست رہنما لالہ منیراور شیر محمد اغوا ہوئے، کچھ دن بعد ان کی تشدد زدہ لاشیں ملیں۔ ایسی درجنوں کہانیاں ہیں، اور بیسیوں لاشیں۔

ایک مسئلہ ہے لاپتا افراد کا، لوگ غائب ہو جاتے ہیں، باپ، بیٹے، خاوند، بھائی، ان کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے، ان کا ذکر کبھی کبھی عدالتوں میں سنتے ہیں، کبھی کبھار پارلیمان میں، خصوصی کمیشن بھی بنتے ہیں، نتیجہ کچھ نہیں نکلتا، نتیجہ تو خیر کیا نکلنا ہے مسئلہ اور الجھا دیا جاتا ہے، سال ہا سال گزر گئے، پاکستانی شہری اغوا ہوتے چلے گئے، کچھ دو چار سال بعد کٹے پھٹے گھروں کو لوٹ آئےجب کہ ہزاروں کوزمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ لاپتا افراد ’بیانیے‘ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ انسانی مسئلہ ہے، یہ گمشدہ بھائیوں، لاپتا خاوندوں، جبری اغوا شدہ بیٹوں کی بات ہو رہی ہے۔ ان لاپتا افراد کے لواحقین کی ذہنی ساخت کیا ہوتی ہے؟ ان کی زندگی کا واحد نصب العین کیا ہوتا ہے؟ سنتے ہیں کہ ماہ رنگ بلوچ کا باپ بھی اغوا ہو گیا تھا، اور پھر اس کی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔ پچھلے 77سالوں میں بلوچستان میں پانچ علانیہ آپریشن ہو چکے ہیں، ان میں سے دو آپریشنز میں فضائی طاقت بھی استعمال کی گئی تھی، اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ فضائی کارروائی میں کولیٹرل ڈیمج بہت زیادہ ہوا کرتا ہے، ایک آدمی کو مارنا ہو تو کبھی پورا گائوں بھی ملیا میٹ کرنا پڑجاتا ہے۔

یہ جو ایک گھنائونی واردات میں۲۳ معصوم پنجابیوں کو قتل کر دیا گیا ہے، یہ بلوچی پنجابی جھگڑا نہیں ہے، یہ دہشت گردی ہے۔ لیکن جب گھر کے صحن میں آپ کے پیاروں کی لاشیں پڑی ہوں تو جذبات میں تلاطم ہوتا ہے، موقع سے فائدہ اٹھانے والے متحرک ہو جاتے ہیں، اس وقت بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، سوشل میڈیا پر کھلم کھلا پنجابی شاونزم کو ہوا دی جا رہی ہے، افسوس کہ کچھ دوست اس قضیے کو اسی طرح دیکھنے لگے ہیں جیسا کہ دشمن دکھانا چاہتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں جب آپریشن سرچ لائٹ آغاز کیا گیا تو مغربی پاکستان، بالخصوص پنجاب نے اس کی بھرپور حمایت کی تھی، بنگالی عوام اور ان کے لیڈر غدار قرار پا چکے تھے، پاکستان کی اکثریت انڈیا کی ایجنٹ قرار پا چکی تھی، ایک گمراہ کن بیانیہ جیت چکا تھا۔ پروفیسر وارث میر، ملک غلام جیلانی، نواب زادہ نصراللہ خان، حبیب جالب جیسے بہت کم تھے جو با آوازِ بلند کہہ رہے تھے یہ پنجابی اور بنگالی کی لڑائی نہیں ہے، یہ طاقتور اور کمزور کی لڑائی ہے، یہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کا جھگڑا ہے، یہ آئین اور لاقانونیت کی جنگ ہے۔ مگر نفرت کا بیانیہ جیت گیا۔

بلوچستان کا بھی ہو بہ ہو یہی مسئلہ ہے، اس مسئلے کو ایک نفرت انگیز بیانیے کی سموک اسکرین کے پیچھے چھپانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، دھوکا نہ کھائیے۔۔۔ غور فرمائیے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین