• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ـــ فائل فوٹو
ـــ فائل فوٹو

سینیٹ کا آج ہونے والا اجلاس اگلے ہفتے پیر کی شام 5 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

سینیٹ کا اجلاس پریزائیڈنگ آفیسر عرفان صدیقی کی زیر صدارت ہوا۔

سینیٹر پلوشہ خان نے بتایا کہ لاہور میں میری بہن کے گھر 900 یونٹ کی میٹر ریڈنگ 9000 یونٹ لکھ دی گئی پھر  بہنوئی کو دفتر کے 3 ماہ تک چکر لگوائے گئے۔

اُنہوں نے کہا کہ واپڈا نے تسلیم کیا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ معاملہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔

جس پر پریزائیڈنگ آفیسر عرفان صدیقی نے اس معاملے کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

سینیٹر شبلی فراز نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایوان میں ایک بھی وزیر موجود نہیں، یہ حکومت دو تین ہفتے کی مہمان ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کام کرنا چھوڑ دیں۔

پریزایڈنگ آفیسر عرفان صدیقی نے کہا کہ اطلاع دی گئی ہے کہ صبح کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے، آدھے گھنٹے تک وزراء آ جائیں گے، کچھ ممبران بلوچستان پر بات کرنا چاہتے ہیں تو ابھی ہم اس پر بحث کر لیتے ہیں۔

یہ بات سن کر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ بلوچستان پر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی بات نہیں، وزراء کی کرسیاں خالی ہیں، ہم صرف دیواروں سے بات کریں گے؟ کوئی وزیر تو موجود ہو یہاں پر جو بات سنے۔

اُنہوں نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم کورم کی نشاندہی کریں گے تو ایسا نہیں ہوگا، ہم کورم کی نشاندہی نہیں کریں گے اور یہیں بیٹھیں گے۔

سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نے کہا کہ وزراء کمیٹی میں نہیں آتے، بیوروکریٹ جھوٹ بولتے ہیں۔

پریزایڈنگ آفیسر عرفان صدیقی نے کہا کہ وزراء کی نشستیں خالی ہوں تو ایوان کا وقار کم ہوتا ہے، وزراء کمیٹی میں بھی نہیں آتے اور ممبران کا نقطۂ نظر بھی نہیں سنتے، میں ایوان کے ممبران کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔

سینیٹر زرقہ سہروردی نے کہا کہ پاکستان جس نہج پر کھڑا ہے اس پر دو تین لوگ بیٹھ کر حل تلاش نہیں کر سکتے، شراکت داروں کو جب تک آپ نہیں سنیں گے حل نہیں نکلیں گے، گوادر میں جو نوجوان بچیاں گھروں سے نکلی ہیں ان سے بات کون کرے گا؟

سینیٹر ناصر بٹ نے کہا کہ زرقہ سہروردی پہلے بھی بلوچستان پر بات کر چکی ہیں۔

زرقہ سہروردی نے ناصر بٹ کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم خواتین 50 فیصد ہیں اور انہیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔

پریزائیڈنگ آفیسر عرفان صدیقی نے زرقہ سہروردی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کو جینڈر کا معاملہ نہ بنائیں، آپ بلوچستان پر تقریر کر چکی ہیں ابھی آپ نقطۂ اعتراض پر مختصر بات کریں۔

زرقہ سہروردی نے کہا کہ ہم بانیٔ پی ٹی آئی سے ملنے جیل درخواست لے کر جاتے ہیں، جیل حکّام ملنے نہیں دیتے، میں یہ معاملہ آپ کے سامنے پیش کر رہی ہوں۔

اس دوران وزارتِ قانون کا تحریری جواب ایوان میں پیش کیا گیا جس میں یہ لکھا ہے کہ سپریم کورٹ رولز کے تحت سپریم کورٹ میں گرمی اور سردیوں میں تعطیلات ہوتی ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے27 جون کے نوٹی فیکشن کے تحت چھٹیوں کا اعلان کیا،  10جولائی تا 10 ستمبر گرمیوں کی چھٹیاں ہوں گی۔

تحریری جواب میں بتایا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چھٹی کی منظوری عدالت کے چیف جسٹس دیتے ہیں، گرمی اور سردی کی چھٹی دینے کا معاملہ ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں آتا ہے، گرمی اور سردی کی چھٹی دینے کا معاملہ متعلقہ چیف جسٹس کا استحقاق ہے، چھٹی کے معاملے میں وزارتِ قانون کا کوئی کردار نہیں۔

تحریری جواب میں مزید لکھا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی سالانہ چھٹی پر نظرِ ثانی کی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں، وفاقی حکومت کے سول ملازمین سال میں ایک مرتبہ 15 یوم کی چھٹی لیتے ہیں۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اس ایوان میں ایک شخص کا معاملہ اٹھانے پر یہ بحث ہوتی رہی کہ پارلمنٹ سپریم ہے، بحث اس لیے ہوئی کہ اس رکن کو توہینِ عدالت کا نوٹس دیا گیا، اس رکن نے 3 دن بعد جا کر سپریم کورٹ میں معافی مانگ لی۔

وفاقی وزراء اعظم نذیر تارڑ، محسن نقوی اور اویس لغاری ایوان میں پہنچ گئے۔

اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ 2023ء پیش کی۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر ایوان میں بحث ہونی چاہیے، الیکشن کمیشن نے ملک میں انتخابات کا برا حال کیا ہے، الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے فری فئیر الیکشن کروانا۔

جس پر وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 2018ء کے الیکشن بھی آپ کے سامنے ہیں، الیکشن درخواستیں عدالتوں کے سامنے پڑی ہیں۔

سینیٹر شبلی فراز نے یہ سن کر کہا کہ وزیر رپورٹ پر بحث سے روک رہے ہیں، یہ کیوں رپورٹ پر بحث سے پریشان ہو رہے ہیں، یہ فارم 47 والے بیٹھے ہیں، الیکشن کمین کے حکّام عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لیتے ہیں۔

پریزایڈنگ آفیسر عرفان صدیقی نے شبلی فراز سے کہا کہ آپ الیکشن کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیں، ہم اگلے ہفتے ایوان کی رائے لے لیں گے کہ اس پر بحث کرنی ہے کہ نہیں۔

 وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ایوان کو بتایا کہ اپیکس کمیٹی نیشنل ایکشن پلان کے فیصلے کا ازسرِ نو جائزہ لیتی ہے، کل وزیرِ اعظم کی کوئٹہ میں شراکت داروں سے ملاقات ہوئی جو ریاستِ پاکستان کو مانتے ہیں ان کو سر پر بٹھائیں گے، ان کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

اُنہوں نے کہا کہ جو ریاست کو نہیں مانتے اور بندوق اٹھاتے ہیں، وہ دہشت گرد ہیں، ان کا بندوبست کریں گے، 26 اگست کا واقعہ نارمل نہیں، یہ ہپلے سے طے شدہ واقعہ ہے، ہمیں معلوم ہے اس کے پیچھے کون ہے، اس واقعے میں دو تین گروپ ملوث ہیں، یہ واقعہ ایس سی او کے سربراہی اجلاس کو خراب کرنے کی پلاننگ ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کو تکلیف ہے کہ ایس سی او کا سربراہی اجلاس پاکستان میں ہو رہا ہے لیکن ہم  اس اجلاس کی میزبانی کریں گے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اور وزیرِ داخلہ نے پریشان کن بات کی ہے، جو بندوق اٹھاتے ہیں ان کا تو فیصلہ کر لیں گے مگر یہ طے کرنا کہ کون پاکستانی ہے اور کون نہیں اتنا سادہ مسئلہ نہیں ہے، بلوچستان بدل چکا ہے، اب وہ بہت آگاہ ہیں، ہمیں چاہیے کہ بلوچستان کے اصل شراکت داروں کو آن بورڈ لائیں۔

پریزائیڈنگ آفیسر عرفان صدیقی نے کہا کہ محسن نقوی کل ایپکس کمیٹی اجلاس میں موجود تھے، ان سے معلومات لے لیتے ہیں کہ اجلاس میں کیا ہوا۔

جس پر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ کل ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، اس ایپکس کمیٹی نے اختر مینگل کو بلایا اور جس دن ایپکس کمیٹی کا اجلاس تھا اس دن 9 لاشیں گرائی گئیں، ایپکس کمیٹی نے یہ تحفہ دیا۔

قومی خبریں سے مزید