سیاحت کی صنعت نے دنیا کے کئی ممالک کی ترقی اور معاشی استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے نہایت خوش قسمت ہے کہ ہمارے ہاں بلند وبالا پہاڑ اور خوبصورت وادیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔ پنجاب میں سکھ برادری کے پانچ اہم ترین مقامات واقع ہیں۔ ان میں ننکانہ صاحب میں واقع سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک دیو جی کا جنم استھان، نارووال میں واقع گردوارہ دربار صاحب کرتارپور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور ڈیرہ صاحب لاہور اہم ہیں جبکہ ان تاریخی و مذہبی اہمیت کے اہم مقامات کے علاوہ بھی سکھ دور کی کئی تاریخی عمارتیں پنجاب کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ اسی طرح بدھ مت دور کی 8شاندار خانقاہوں، یونیورسٹیوں اور اسٹوپوں کے آثار صوبہ پنجاب سے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ جین مت کے حوالے سے صوبہ سندھ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو صدیوں تک جین مت کے ماننے والوں کا گڑھ رہا ہے۔ اس دور کے چار تاریخی مندر اب بھی تھرپارکر میں موجود ہیں جبکہ بلوچستان میں ہنگول دریا کے کنارے واقع ہنگلاج مندر ہندوؤں کا مقدس ترین مقام ہے جس کی یاترا ہندو مذہب کے ماننے والوں میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کرتار پور کوریڈور بننے سے قبل سکھ یاتری سرحد کے دوسری طرف گردوارے کی سیدھ میں بنے ہوئے ’درشن ستھل‘ سے علی الصبح دُور بینوں کے ذریعے گردوارے کے درشن کر کے اپنی عبادات کا آغاز کیا کرتے تھے۔ کرتارپور کوریڈور کھلنے سے اب وہ اس مقدس مقام تک خود چل کر درشن کیلئے آ سکتے ہیں جس سے ناصرف پاکستان میں مذہبی سیاحت کو فروغ مل رہا ہے بلکہ دونوں ملکوں خصوصا سکھ برادری میں پاکستان کے حوالے سے مثبت تاثر بھی فروغ پا رہا ہے۔ اس کامیاب تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ پاکستان میں موجود دیگر مذاہب کے اہم مذہبی مقامات کی بحالی کر کے ان تک رسائی آسان بنائے۔ اسی طرح ٹیکسلا، ہری پور، مردان اور سوات و دیگر شمالی علاقے قدیم گندھارا تہذیب کی وجہ سے بدھ مت کے ماننے والوں اور دیگر غیر ملکی سیاحوں کیلئے بہت زیادہ کشش کے حامل ہیں۔
سکھ ازم اور بدھ مت کے علاوہ ہندو مت اور جین مت مذہب کے ماننے والوں کے درجنوں اہم اور مقدس مقامات بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ اگر حکومت اس حوالے سے کوئی منظم حکمتِ عملی تشکیل دے تو پاکستان کیلئے اربوں روپے کا زرمبادلہ کمانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ تاہم اس کیلئے ہمیں اپنے شہریوں کی ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے اور معاشی استحکام میں مذہبی سیاحت کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اس سلسلے میں مذہبی سیاحت کے حوالے سے اہم مقامات اور علاقوں کی مقامی آبادیوں کو سیاحتی پالیسیوں میں شامل کر کے شعور اور آگاہی فراہم کرنا ہو گی تاکہ وہ اپنی لاعلمی سے ان بیش بہا وسائل کو نقصان نہ پہنچائیں۔ علاوہ ازیں ملک میں امن و امان کی صورت حال اور سیاحتی سہولتوں کو بھی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا بھر کے سیاح خاص طور پر مذہبی سیاحت کیلئے آنے والے افراد ہزاروں ڈالر خرچ کر کے غلیظ باتھ رومز، ہوٹلوں کے گندے اور سیلن زدہ کمروں میں رہنا پسند نہیں کریں گے۔
علاوہ ازیں ہمیں سیاحت کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کا درجہ دیتے ہوئے اس شعبے سے وابستہ مقامی افراد کے رویوں کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ جو بھی غیر ملکی پاکستان کے کسی ائیرپورٹ پر اترتا ہے ہمارے اکثر ہم وطن اسے سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھ لیتے ہیں۔ ان منفی عوامل اور رویئے پر قابو پانے کیلئے حکومت کو سیاحت کے حوالے سے موثر قانون سازی کرنے اور قوانین مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اقدام سے جہاں ہمیں بیش قیمت زرمبادلہ حاصل ہو گا وہیں دنیا کو ہماری طرف سے امن اور مذہبی رواداری کا پیغام جائے گا اور دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں مثبت تاثر اجاگر ہو گا۔
اس شعبے کو ترقی دینے اور بیرون ملک سے مذہبی سیاحت کیلئے پاکستان آنے والوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی کیلئے حکومت کو فوری طور پر یونیسکو کے مقرر کردہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق انفراسٹرکچر کی ترقی اور اسے برقرار رکھنے کیلئے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ یا ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ کا ماڈل اختیار کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ بیرون ملک مختلف فورمز پر ہونے والی ملاقاتوں میں سکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت یہی گلہ کرتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کیلئے پاکستان آنا چاہتے ہیں لیکن انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں سہولیات، رہائش، سکیورٹی اور ہوٹل مینجمنٹ کے عملے کی مناسب تربیت کی کمی کے علاوہ کم معیار کی خدمات شامل ہیں۔ اگر ملک میں ہوٹل انڈسٹری پر توجہ دی جائے اور عالمی معیار کے مطابق افرادی قوت تیار کی جائے تو سالانہ لاکھوں افراد کو پاکستان کا سفر کرنے پر راغب کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے اگر ہم انڈیا اور انڈیا سے باہر موجود سکھ کمیونٹی اور چین کی سیاحتی صنعت پر ہی فوکس کر لیں تو وہاں سے ہر سال لاکھوں سیاح پاکستان آ سکتے ہیں۔ چین سے ہر سال تقریباً ڈھائی کروڑ سے زائد سیاح بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔ اسی طرح یورپ اور امریکہ سمیت ہمسایہ ملک انڈیا کے شہریوں کیلئے بھی پاکستان میں مذہبی و تاریخی مقامات کی سیاحت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کو اس شعبے پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک ہندوستان، ایران اور سری لنکا پہلے ہی اس شعبے میں ہم سے کہیں آگے ہیں اور وہاں مذہبی و ثقافتی مقامات کی سیاحت اربوں ڈالرز کی صنعت بن چکی ہے۔