یاسر عالم
عاشقِ رسولؐ،پیکرِ علم وعمل، مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اسلامی تاریخ کی وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے عقائدِ جمہورِ اُمت اور طریقۂ سلف کی حفاظت وبقا کے لیے بے مثال کردار ادا کیا۔آپؒ کی پیدائش10 شوال المکرم14 جون 1856ء کو بریلی (یوپی) کے محلے جسولی کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔آپ عالمِ شباب میں ہی فنونِ عربیہ اور علومِ دینیہ کے ماہرکے طورپر مشہور ہوئے۔
علمِ تفسیر، علمِ حدیث اور علمِ فقہ میں ایسے القابات ان کے نام کے ساتھ آنے لگے کہ ہر انجانے کومحسوس ہوتا کہ یہ کوئی عمر کے لحاظ سے بڑی شخصیت کے حامل فرد ہیں۔ برّصغیر کے علما ان سے استفادہ کرتے۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ویسے ویسے علوم کی تعداد بڑھتی گئی،جس کی تصدیق جلیل القدر علمی شخصیات نے کی۔
پانچ سال کی عمر میں قرآنِ مجید ناظرہ مکمل کیااور 1869ء میں علوم ِ دینی وعقلی کی تکمیل کرکے منصبِ افتاء پر فائز ہوئے ۔1877ء میں شاہ آلِ رسول مارہروی سے سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہوئے ۔آپ نے بعض علوم میں ذاتی مطالعہ،غور وفکر سے کمال حاصل کیا،خصوصاً ریاضی اور علمِ فلکیات میں۔1878ء میں پہلا حج اپنے والد نقی علی خان مرحوم کے ہمراہ کیا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد علوم وفنون میں حیرت انگیز مہارت عطافرمائی تھی۔فقہ میں اُنہیں کمال حاصل تھا۔
حکیم عبدالحئی ندوی ’’ نزہۃ الخواطر ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ فقہ حنفی اور اُس کی جزئیات پر انہیں وہ عبور حاصل تھا جو شاید ہی کسی دوسرے کو حاصل ہوا۔ اس حقیقت پرفتاویٰ رضویہ شاہد ہے، ڈاکٹر علامہ اقبال واشگاف لفظوں میں ان کی فقاہت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں ۔امام احمد رضا ؒ نے قرآن وحدیث کا بہت ہی وسیع اورعمیق مطالعہ کیاتھا،سورۃ الضحیٰ کی تفسیر لکھنے لگے تو 600صفحات سے تجاوز کرگئی، قرآن مجید کا ترجمہ لکھا،جسے بلامبالغہ ان کا علمی شاہ کار قراردیا جاسکتا ہے۔
مُحدّثِ بریلویؒ عشقِ رسالت ﷺ کی ایک تحریک کا نام ہے ،دلوں کے اندر عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے روشن قندیل کا نام ہے۔آپ کی فکر ونظر اور قرطاس وقلم کا مرکز ہمیشہ قرآنِ مجید اور سرکارِدو عالم ﷺ کی ذاتِ کریم رہی، آپ ترجمانِ علم وحکمت ، داعی حق وصداقت واتحاد بین المسلمین کے علم بردار تھے۔
آپ شیریں بیانی سے بچھڑے لوگوں کو قریب کرتے رہے ۔زورِتقریر سے بے دینوں کا منہ بند کرتے رہے ۔آپ نے گلشنِ عظمت مصطفیٰ ﷺ کو ہرابھرا بنایا،گمراہوں کو راہِ حق دکھانے میں بے پناہ محنت کی،ہزاروں بہکے ہوئے لوگوں کو درِبار نبی ﷺ پر لاکھڑا کیا۔ آپ دشمنانِ خدا اوردشمنانِ رسول ﷺ پر بجلی بن کر گرتے۔
آپ نے اللہ عز وجل کی وحدانیت اور سرکار دوعالم ﷺ کی عظمت وحُرمت کا ڈنکا دنیا میں بجایا۔ آپ نے دینِ مبین کی راہ میں آندھیوں سے تیز اٹھنے والے فتنوں اور سیلاب کی طرح بڑھنے والی گمراہیوں کے سامنے دیوارآہن کا کام کیا، اس پُرآشوب دور میں میدانِ عمل میں کود پڑے ،جب ہزاروں بیدرد اسلام کے ہرے بھرے چمن کو اجاڑ دینے کی کوششوں میں مصروف تھے، وہ مسلمانوں کا متاعِ ایمان لوٹنے پر تُلے ہوئے تھے۔
جب مرزا قادیانی انگریزوں کی ناپاک سازش کے عین مطابق پہلے امام مہدی اور پھر مسیح موعود اورپھر اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرکے مسلمانوں کو گمراہ کررہا تھا،ساری کارروائیاں اسلامی تبلیغ کے نام پر انجام دے رہا تھا،تو اس فتنے کا سدِباب کرنے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔
اعلیٰ حضرتؒ نے مُلحد ،فاسق اور نام نہاد صوفیوں کے خلاف بھی اپنا فریضہ انجام دیا۔آپ نے اپنی کتاب’’ مقال العرفاء‘‘ میں قرآن وحدیث اور اقوالِ علماء سے ثابت کیا کہ شریعت اصل ہے اور طریقت اس کی فرع ،شریعت منبع ہے اور طریقت اس سے نکلا ہوا ایک دریا ،طریقت کی جدائی شریعت سے محال ودشوار ہے ،شریعت ہی طریقت کا دارومدار ہے اور شریعت ہی اصل معیار ہے۔ طریقت میں جوکچھ منکشف ہوتا ہے،شریعتِ مطہرہ ہی کی اتباع کا صدقہ ہے، جس حقیقت کو شریعت رَد فرمائے، وہ حقیقت نہیں ،بے دینی اور زندقہ ہے۔
اعلیٰ حضرتؒ کا اہم کارنامہ’’ فتاویٰ رضویہ ‘‘ہے ،جسے پاک وہند اور دیگر ممالک کے علمانے ’’ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام‘‘اور ایک عظیم فقہی شاہ کار قراردیا ہے۔ علامہ عبدالرؤف سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ(یوپی) لکھتے ہیں:’’فتاویٰ رضویہ (قدیم )بارہ جلدوں میں ہے،جس کی ہر جلد تقریباًہزار صفحات پر مشتمل ہے،جس میں فقہ اسلامی کے ہزارہا مسائل پر ایسی تحقیق بیان ہوئی ہے ،جو اپنی مثال آپ ہے۔
آپ کے بیش تر فتاویٰ کثیرالتعداد آیات ِ قرآنی،احادیثِ کریمہ اور روایتِ اصول وفروع کی شہادتوں سے گراں بار ہوئے ہیں ‘‘۔ اس وقت موجودہ’’ فتاویٰ رضویہ‘‘ تخریج کے ساتھ33جلدوں پر مشتمل ہے،جو ایک بڑا علمی ذخیرہ ہے۔تحقیقاتِ علمی میںامام احمد رضاؒکا بلند ترین مقام تو اہلِ علم کے نزدیک مُسلّم ہی ہے ،اس کے ساتھ ساتھ وہ شعروادب میں قادرالکلام اساتذہ کی صف میں شامل تھے ،جامعہ الازہر مصر کے ڈاکٹر محی الدین الوائی نے اس امر پر حیرت کا اظہارکیاہے کہ علمی موشگافیاں کرنے والا مُحقق، نازک خیال ادیب شاعر بھی ہوسکتا ہے، البتہ انہوں نے اصنافِ سُخن میں سے حمدِ باری تعالیٰ،نعت اور منقبت کو منتخب کیا اور قصیدۂ معراجیہ اور مقبولیتِ عامہ حاصل کرنے والا سلام ’’مصطفیٰؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘جیسے ادب پارے پیش کیے۔
فلسفۂ جدید (سائنس )اور فلسفۂ قدیم کے نظریات پر ’’الکلمۃ الملہمہ ‘‘ اور ’’فوزِ مبین‘‘ میں سخت تنقید کی ۔ان کا نظریہ یہ تھا کہ سائنس کو اسلامی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سائنس کو اسلام کے تابع کیاجائے، ناکہ اسلام کو سائنس کے سانچے میں ڈھال دیا جائے ۔اعلیٰ حضرتؒکی جملہ تصانیف کی بنیاد اسلام اور داعی اسلام سیدالانام ﷺ سے گہری وابستگی پر ہے ۔آپ کا وصال 25صفر1340ھ مطابق 28اکتوبر1921ء کو ہوا۔
سر تِرے در پر جھکایا ہے امام احمد رضاؒ
تجھ کو اِس دل میں بسایا ہے احمد رضاؒ
تا اَبد اُس کو بہارِ جاودانی مِل گئی
پھول جو تُونے کھلایا ہے اِمام احمد رضاؒ
جب کہا اُنؐ کو خدا نے ’’رحمۃ للعالمیںؐ‘‘
تُونے بھی یہ گیت گایا ہے اِمام احمد رضاؒ
اب بھی آتے ہیں فرشتے نعت سُننے کے لیے
مرتبہ تُونے یہ پایا ہے اِمام احمد رضاؒ
مصطفیؐ کا تذکرہ جب بھی ہُوا ہے بزم میں
شعر تیرا لب پہ آیا ہے اِمام احمد رضاؒ
عشقِ احمدؐ میں گزاری تُونے اپنی زندگی
خود کو پروانہ بنایا ہے اِمام احمد رضاؒ
مرتبہ حاصل ہُوا یہ مُصطفیٰؐ کی نعت سے
تخت پر تجھ کو بٹھایا ہے اِمام احمد رضاؒ
نعت کہنا سیکھ جائے آپؒ کے صدقے ندیمؔ
آپؒ کو مُرشد بنایا ہے اِمام احمد رضاؒ
(ریاض ندیم نیازی)