قارئین !ایشیائی ترقیاتی بینک کی حالیہ رپورٹ میں ترسیلات زر کو پاکستانی معیشت کا اہم ستون قراردیا گیا ہے،جس میں اضافہ ملکی پیداواری صلاحیت اور ترقی کی شرح میں اضافہ کرسکتا ہے ۔ترسیلات زر جو کہ جی ڈی پی کے 10فیصد کے برابر ہیں،ملکی آمدنی کا ایک مستحکم ذریعہ ہیں۔ کووڈ19کی عالمی وبا کے دوران جب برآمدات میں کمی یقینی تھی، ان حالات میں بھی ترسیلات زر میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا ۔مالی سال 2020میں ملکی بر آمدات 21ارب ڈالر تھیں، جو کہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں 2ارب ڈالر کم تھیں، مگر اس سال سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر 26ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو کہ پہلے کے مقابلے میں 4ارب ڈالر زیادہ تھیں ۔جبکہ رواں سال جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران ملک عزیز کی بر آمدات 30ارب 64کروڑ ڈالر رہیں اور ترسیلات زر 30ارب 30کروڑ ڈالر۔ یعنی اس وقت زرمبادلہ کے ان دونوں بڑے وسائل کا پلڑ ا تقریباََ برابر ہے۔ اس صورتحال میں جب ملک کو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ترسیلات اور بر آمدات میں ترقی کی دوڑ شروع ہونی چاہئے کہ اگلے سال ایک دو سال میں کون آگے نکلتا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ برآمدات میں اضافے کے ساتھ ترسیلات زر بڑھانے پر بھی خاص توجہ دی جائے۔ اس کیلئے جہاں قانونی اور آسان ترسیلی سہولیات بہم پہنچانا ضروری ہے وہاں سمندر پار کام کیلئے جانے والی افرادی قوت کی مہارت اور انہیں ملازمتوں کے حصول میں مدد فراہم کرنا بھی اہم ہے۔ برآمدی صنعت پر حکومت سال بھر توجہ دیتی ہے، مختلف طرح کی سہولیات اور ترغیبات سے بر آمدی حجم بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے، سفارتی ذرائع بروئے کار لائے جاتے ہیں اور حکومتی سطح پر روابط سے بر آمدات کے فروغ کے اقدامات کئے جاتے ہیں ۔یہ ساری کاوشیں بجا اور نہایت ضروری ہیں اور جہاں تک ممکن ہوان میں اضافہ کیا جانا چاہئے تاکہ پاکستان اپنی صلاحیت کے مطابق بر آمدی ہدف تک پہنچ سکے۔ حکومت اگرافرادی قوت کی بر آمد بڑھانے پر توجہ دے تو پاکستانی ہنر مندوں کیلئے دنیا کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ خلیج کے عرب ممالک ہمارے روزگار کی اہم منڈیاں ہیں اور یہ ممالک پاکستانی افرادی قوت کی ترسیلات زر میں بدستور سرفہرست ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افرادی قوت کی تربیت کا اہتمام کیا جائے اور انہیں ملازمتیں حاصل کرنے میں مدددی جائے۔ اس وقت جب اندرونی اور بیرونی قومی قرضوں کا حجم غیر معمولی طور پر بڑھ چکا ہے اور ہر سال ملکی آمدنی کا بڑا حصہ ان قرضوں کے سود پر خرچ ہوتا ہے، قومی آمدنی بڑھانے کیلئے جو اقدامات کئے جانے چاہئیں ان میں افرادی قوت کی ترسیلات میں اضافہ حکومت کی اہم ترجیح ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر ادائیگیوں کے توازن کی مشکلات سے نکلنا اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کو قابو میں رکھنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ہمارے معاشی منصوبہ سازوں کو عالمی مالیاتی اداروں سے چند ارب ڈالر قرض لینے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ اگر سمندر پا ر پاکستانیوں کی ترسیلات کیلئے جامع نظام قائم ہو تو ایک اندازے کے مطابق ترسیلات میں 5ارب ڈالر سے زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو ہماری اپنی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ایک مستحکم آمدنی ہے جو ہر ماہ حاصل ہوگی۔
دوسری جانب بلوچستان میں دہشتگردی کے یکے بعد دیگرے کئی واقعات میں 23سویلین شہریوں سمیت 37افراد کو شہید کر دیا گیا ۔سب سے خوفناک واقعہ موسیٰ خیل راڑہ شم میں پیش آیا جہا ں سفاک دہشتگر دوں نے بسوں اور ٹرکو ں سے 23افراد کو اتار کر ان کے شناختی کارڈ چیک کئے اور قتل کر دیا، اس موقع پر 10گاڑیاں بھی نذر آتش کردی گئیں۔ جاں بحق افراد کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔ بولان کے علاقے ڈھاڈر میں دھماکہ خیز مواد سے ریلوے پل اڑا دیا گیا۔ پل کے نیچے اور اطراف سے 6افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں یہاں بھی مقتولین کو شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا گیا۔ دریں اثنا قلات میں سیکورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں، جن میں 2قبائلی رہنمائوں، پولیس کے سب انسپکٹر اور 4لیویز اہلکاروں سمیت 9افراد شہید ہوگئے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر سمیت 5لیویز اہلکار زخمی ہیں ،مستونگ میں دہشتگردوں نے لیویز تھانے پر حملہ کے بعد عمارت کو آگ لگا دی، اہلکار محفوظ رہے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق بلوچستان میں جوابی کارروائیوں میں اب تک 12دہشتگرد جہنم واصل کئے جا چکے ہیں۔ دہشتگردگروپ بلوچستان لبریشن آرمی مجید بریگیڈ (بی ایل اے) نے صحافیوں کو ای میل کئے گئے ایک بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
بھارت نواز دہشتگردوں نے ایک رات میں 5سے زیادہ مقامات پر حملے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو شناخت کر کے قتل جیسی گھنائونی واردات ایک ایسے وقت میں کی ہے جب ایک اعلیٰ سطح کا چینی وفد پاکستان میں موجود ہے اور وزیر اعظم چین چند ہفتے بعد اکتوبر میں پاکستان آرہے ہیں، دہشتگردی کی وارداتوں میں اچانک ہونے والا اضافہ اور پاکستان کے اندر او ر بھارت سے اس کی سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر تشہیر، جھوٹے دعوے اور گمراہ کن معلومات کا طوفان یہ بتا نے کیلئے کافی ہے کہ دہشتگرد، ان کے عالمی سرپرست اور مقامی ہمدردسی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے ایجنڈے پر مبنی اقدام کے ذریعہ سے پاکستان خصوصاََ بلوچستان میں استحکام کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے اندرون ملک، فورسز اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے والے عناصر اور عوامل کا سد باب کیا جانا چاہئے، کیونکہ دہشتگردی کے خلاف کوئی بھی جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی اور نہ ہی تنہا فورسز دہشتگردوں کو ختم کر سکتی ہیں، اس مقصد کی خاطر پوری قوم کو یک جان ہو کر میدان میں اترنا ہوگا۔