دنیا کے 2 اہم سمندروں یعنی بحرالکال اور بحر اوقیانوس کو ملانے والی پاناما کینال جس کی ملکیت پاناما کے پاس ہے لیکن اس کی تعمیر میں امریکا کا کردار کلیدی تھا۔
خاص طور پر امریکا کے لیے اس کی اہمیت اس لحاظ سے اور زیادہ ہو جاتی ہے کہ اگر یہ نہر نہ ہوتی تو امریکی بحری جہازوں کو مغرب اور مشرق کے درمیان 8000 ناٹیکل میل (15000 کلو میٹر) کا فاصلہ طے کرنا پڑتا جو اس نہر کی تعمیر کے بعد کافی کم ہو گیا تھا۔
اس نہر کا انتظام 1979ء سے امریکا اور پاناما مل کر چلا رہے ہیں تاہم 31 دسمبر 1999ء کو ٹورجیز کارٹر ایکٹ کے تحت اس کینال کا انتظام مکمل طور پر پاناما کے سپر د کر دیا گیا تھا۔
سوئز کینال کی طرح پاناما کینال دنیا کی اہم آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے، اعداد و شمار کے مطابق 2022ء میں مجموعی طور پر 14 ہزار 200 بحری جہاز اس گزرگاہ سے گزرے۔
13 جون 2013ء کو چین اور پاناما کے درمیان باضابطہ تعلقات کا اعلان سامنے آیا، چین نے اقتصادی لحاظ سے جہاں ترقی کی، وہیں اس کے جنوبی امریکی ریاستوں سے تعلقات میں بہتری آتی گئی، یہی بات پاناما نہر کے حوالے سے اقتصادی محاذ آرائی کی وجہ بنی۔
نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے پاناما کینال پر سخت مؤقف اختیار کیا، ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے پاناما کینال پر غیر معمولی سخاوت کا مظاہرہ کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ شاید یہ کینال غلط ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔
دوسری جانب چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے نہر پاناما کو پاناما کا اہم قومی اثاثہ قرار دیا ہے۔
ادھر پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے پاناما کینال پر کنٹرول کی دھمکی پر امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جواب دیتے ہوئے نے کہا ہے کہ پاناما کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاناما کینال کی انتظامیہ پر چین کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے، ریٹ کسی خواہش پر مقرر نہیں کیے گئے، کینال پاناما کی ملکیت ہے۔