پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ وفاق کےلیے بُرا شگون ہے۔ آئین کے تحت انتخابی جمہوری و سیاسی عمل میں حصہ لینے والے بلوچ سیاستدان کا استعفیٰ تشویشناک ہے۔
اپنے بیان میں سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سردار اختر مینگل کا استعفیٰ مؤخر کیا جائے اور بات کی جائے۔ ان حالات میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، لشکری رئیسانی اور اختر مینگل جیسے سیاستدانوں کا دم غنیمت سمجھا جانا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عبدالغفور حیدری اور مولانا ہدایت الرحمان جیسے سیاستدانوں کا بھی دم غنیمت سمجھا جانا چاہیے۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ان کی سخت باتیں سنجیدگی سے سنی جائیں اور آئینی انتخابی سیاست کرنیوالوں کا ساتھ حاصل کیا جائے۔
انکا کہنا تھا کہ انفرادی ملاقاتوں کے دوران متعدد بار توجہ دلانے کے باوجود میرے موقف پر توجہ نہیں دی گئی، میرے موقف کو بعض اوقات ناپسند بھی کیا گیا۔
سعد رفیق نے کہا کہ بلوچستان میں نفرت کا زہر پھیلتا جا رہا ہے، اس کا تریاق تلاش کیا جائے۔ سی پیک کی بحالی اور تکمیل کو روکنے کےلیے بیرونی قوتیں پوری طرح سرگرم ہیں، تشدد اور دہشت گردی کی نئی لہریں اسی کا شاخسانہ ہیں۔
رہنما ن لیگ نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ محض طاقت کے استعمال یا محض مذکرات کے ذریعے حل نہیں ہوگا اور نہ ہی پسندیدہ سیاسی کھلاڑیوں کے ذریعے حل ہوگا۔
انکا کہنا تھا کہ دردمندانہ اپیل ہے کہ حکمران اتحاد اور ریاستی ادارے سر جوڑ کر بلوچستان کا پائیدار حل تلاش کریں۔ سوچنا ہوگا کہ کل کے اتحادی آج مخالف کیمپ میں کیوں اکٹھے ہونے دیے گئے ہیں؟
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سر تک آ چکا، کوئی جامع منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی۔ سی پیک کی بحالی اور تکمیل کو روکنے کےلیے بیرونی قوتیں پوری طرح سرگرم ہیں، تشدد اور دہشت گردی کی نئی لہریں اسی کا شاخسانہ ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ اس کے توڑ کےلیے قابل عمل مشترکہ سیاسی و عسکری حکمت عملی کا فقدان نظر آتا ہے۔ پاکستان توڑنے اور الگ ہونے کا خواب انشا اللّٰہ تشنۂِ تکمیل ہی رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا درد ناسور بن رہا ہے، نفرت کا زہر پھیلتا چلا جا رہا ہے، اس کا تریاق تلاش کیا جائے۔