• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانیٔ پی ٹی آئی کو ایک وقت میں 3 وکلاء سے ملوانے کا حکم

---فائل فوٹو
---فائل فوٹو 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانیٔ پی ٹی آئی کے وکلاء کو ٹرائل کے لیے اڈیالہ جیل میں داخلے سے روکنے کے خلاف درخواست پر 3 وکلاء پر مشتمل کمیشن قائم کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے بانیٔ پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران کہا کہ وکلاء کی شکایت ہے کہ گاڑیاں جیل سے دور کھڑی کرائی جاتی ہیں، پینے کے لیے پانی تک نہیں ہوتا۔

سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے عدالت کو بتایا کہ تمام وکلاء کو بغیر رکاوٹ باعزت طریقے سے داخلے کی اجازت دی جاتی ہے، جن وکلاء کا وکالت نامہ ہے اُن کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے، سیکیورٹی کی وجہ سے وکلاء کی گاڑیاں گیٹ تک نہیں جانے دی جاتیں۔

جسٹس سرداراعجاز اسحاق خان نے کہا کہ اس ملک میں لفظ سیکیورٹی کا سب سے زیادہ غلط استعمال کیا جاتا ہے، گاڑیاں وکلاء کو گیٹ پر چھوڑ کر واپس پارکنگ میں جا سکتی ہیں، آپ گاڑیوں کی چیکنگ کریں، ان کے ساتھ سیکیورٹی کا کیا مسئلہ ہے؟

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ جن وکلا کے وکالت نامے ہیں اُن کو سہولت فراہم کی جاتی ہے، 25 سے 30 وکلاء آ جاتے ہیں تو ان کے لیے یہ سہولت نہیں دے سکتے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ یہ تو دو متضاد باتیں سامنے آ گئی ہیں، کیا بانیٔ پی ٹی آئی کوئی دہشت گرد ہیں کہ اتنی سیکیورٹی میں ٹرائل کرنا ہے؟ ملزم کو وکلاء سے ملاقات کی اجازت لازم ہے، یہ اجازت نہ دینا براہِ راست توہینِ عدالت ہے، قیدی اپنے وکیل سے کیا گفتگو کرتا ہے؟ یہ سننے کے لیے اہلکار کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔

نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ وکیل فیصل چوہدری نے گزشتہ روز اپنا وکالت نامہ ٹرائل کورٹ میں جمع کرایا ہے، نیب لازم فریق تھا لیکن نیب کو اس کیس میں فریق نہیں بنایا گیا۔

عدالت نے کہا کہ یہ درخواست گزار اور جیل حکام کے درمیان کا معاملہ ہے، پراسیکیوشن کا کوئی تعلق نہیں، سب کو پتہ ہے کہ ہو کیا ہو رہا ہے، اس میں جیل انتظامیہ کا کوئی کردار نہیں۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ہم بیانِ حلفی دیتے ہیں کہ آئندہ ایسی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔

جسٹس سردار اعجاز نے کہا کہ بیانِ حلفی کی اگر خلاف ورزی کی گئی تو وہ بھی توہینِ عدالت ہو گی، وکلاء کی گاڑی ایک کلو میٹر دور کیوں کھڑی کی جاتی ہے؟ ہمیں میوزیکل چیئر نہیں بھولنا چاہیے، ہو سکتا ہے کل یہ لوگ آپ کی جگہ کھڑے ہوں۔

عدالت نے فیصل چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کو پراسیکیوشن کی طرف کھڑے ہو کر دلائل دیتے بھی دیکھا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے عدالت کو بتایا کہ کہ ہمارے ساتھ پچھلے ایک سال سے یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ پورے ملک کے ساتھ یہ 75 سال سے کیا جا رہا ہے، آپ ایک سال کی بات کر رہے ہیں۔

عدالت نے وکیل نعیم پنجوتھا سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں تو سارا دن لے لیں، یہ باتیں کیس سے غیر متعلقہ ہیں، اس عدالت کے پاس اس مسئلے کے حل کے دو ہی آپشن موجود ہیں، ایک تو یہ کہ ٹرائل جیل سے کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے، دوسرا آپشن یہ ہے کہ کسی نوجوان وکیل کو کمیشن بنا دوں، وہ وکیل اڈیالہ جیل جائے اور کوئی اونچ نیچ ہو تو عدالت کو رپورٹ کرے، اوپن ٹرائل میں پبلک کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں؟ پبلک کے کون لوگ عدالت میں موجود ہوں گے، اس کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟

وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ جیل عدالت کمیونٹی سینٹر ہے، پرانے سنیما کی طرح ہے، جہاں فلم چلتی تھی۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ابھی بھی وہاں فلم ہی چلا رہے ہیں۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں ٹرائل جج موجود ہوتے ہیں، ان کی عدالت میں درخواست دائر کی جائے، ٹرائل جج مناسب سمجھیں تو کوئی ڈائریکشن بھی جاری کر سکتے ہیں۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ وہاں سے کوئی ڈائریکشن نہیں آئے گی آپ کو اور ہمیں بھی پتہ ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ درخواست گزار وکلاء لوکل کمشنر کو ہر وزٹ پر 10ہزار روپے ادا کریں گے، بانیٔ پی ٹی آئی کے ہر وکیل کے ساتھ 3 ایسوسی ایٹ جیل ٹرائل میں جائیں گے۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ 3 ایسوسی ایٹ ساتھ لے جانے کا آرڈر نہ کریں وہاں جگہ بھی کم ہے۔

اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ جیل ٹرائل کرنے کا فیصلہ بھی تو آپ نے کیا ہے، اگر ملزم 9 سو وکیل بھی کرنا چاہتا ہے تو ان کو اجازت ہو گی، جب جیل ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا تو اُس وقت دیکھ لیتے کہ کیا پیچیدگیاں ہوں گی، آپ پبلک کے لوگوں کو کم کر دیں، متعلقہ لوگوں کو جانے کی اجازت دیں، اگر ایسا ہے تو میں کمرۂ عدالت میں موجود پبلک کے لوگوں کی بُک طلب کروں گا، دیکھا جائے گا کہ کمرۂ عدالت میں موجود ان لوگوں کو وکلأ اور صحافیوں پر ترجیح کیوں دی گئی؟

دورانِ سماعت پراسیکیوٹر جنرل اور نعیم حیدر پنجوتھا میں تلخ کلامی ہو گئی۔

اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ اس بڑی جنگ میں آپ وکلاء اپنا ڈیکورم کیوں خراب کر رہے ہیں؟

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 3 وکلاء پر مشتمل کمیشن قائم کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔

قومی خبریں سے مزید