مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے انسان کو دو طرح کی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں: ۱:... بولنے کی صلاحیت، ۲:...لکھنے کی صلاحیت۔ روزِ اول سے انسان ان دونوں صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتا آیا ہے، خصوصاً بیان کرنے کا ملکہ تو ہر دور میں انسانی ضرورت کا لازمہ رہا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام نے اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور توحید کی دعوت انسانوں کو اپنے قوت کلام و زورِ بیان ہی کے ذریعے دی ہے۔ الفاظ اور جملے اپنے اندر ایک تاثیر رکھتے ہیں اور جب کہنے والا سامعین کے لئے خیرخواہی و دردمندی کے جذبے سے معمور ہو تو پتھر دل بھی موم ہوجاتا ہے۔
جدید دور میں لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کے لئے جہاں مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں، ان میں ایک مؤثر ذریعہ ’’کانفرنس‘‘ کے عنوان سے اجتماع کرکے اپنا پیغام پہنچانا ہے۔ خاتم النبیین آنحضرتﷺ نے اسلام کی دعوت عام کرنے کے لئے نجی مجالس و محافل میں بھی اعزہ و اقارب کو مدعو کرکے انہیں پیغام دیا اور فاران کی چوٹی پر کھڑے ہوکر بھی صدا لگائی۔ آپﷺ کی ختم نبوت کا شعور دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے لئے غلامانِ مصطفیٰ بھی عوامی مقامات پر جلسوں اور کانفرنسوں کا اہتمام کرکے درحقیقت اسی سنت نبویہ کی یادگار برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام پورے ملک میں چھوٹی بڑی کانفرنسوں کا جال پورا سال بچھا رہتا ہے ،مگر دو روزہ سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر ان میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کانفرنس دراصل متحدہ ہندوستان میں قادیانی فتنے کا مقابلہ کرنے کے لئے ۲۰ تا ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو قادیان میں ہونے والی پہلی ختم نبوت کانفرنس کا تسلسل ہے۔
فتنۂ قادیانیت نے عقیدئہ ختم نبوت پر ڈاکا ڈالا تو اسلام کی ایک ایک اصطلاح کو چُراکر اپنے کفر و زندقہ پر چسپاں کرنے کی کوشش کی، اپنے فتنہ پرور مذہب ِ قادیانیت کو العیاذباللہ! اسلام کا نام دیا، مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کو محمد رسول اللہ ٹھہرایا، آپﷺ کے اہل بیت کی اصطلاح مرزا نے اپنے گھر والوں کے لئے استعمال کی، ام المومنین کا اعزاز اپنی بیوی کو دیا، آپﷺ کے صحابہ کرامؓ کا لقب اپنے بے ایمان ساتھیوں کو دیا، قرآن کریم کے مقابلے پر اپنے شیطانی الہامات و پیشگوئیوں کا چربہ ’’تذکرہ‘‘ نامی کتاب کو لاکھڑا کیا، کفر کے گڑھ قادیان کو مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ سے افضل قرار دیا، حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کا مصداق خود کو ٹھہرایا، قادیان میں جعلی منارۃ المسیح بنایا، زکوٰۃ کی جگہ سالانہ ٹیکس عائد کیا، جہاد کو منسوخ کردیا، نام نہاد بہشتی مقبرہ بنایا اور حج کی بجائے قادیان کے سالانہ جلسہ میں حاضری کو لازمی قرار دیا۔ یہی سالانہ جلسہ قادیانی کفر و زندقہ کی سالانہ عالمی نشرواشاعت کا پلیٹ فارم ہے۔ علمائے امت نے جب فتنۂ قادیانیت کا مقابلہ شروع کیا تو جہاں دلائل و براہین کے میدان اور مناظرہ و مباہلہ کے محاذ پر اسے شکست سے دوچار کیا، وہیں میدانِ خطابت میں بھی اسے چاروں شانے چِت کیا ہے۔
اس وقت خطبائے امت کا سب سے بڑا پلیٹ فارم مجلس احرارِ اسلام تھی، جس کی سرگرمیاں ہندوستان سے انگریز کو نکال باہر کردینے تک محدود تھیں، فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کے لئے تکوینی طور پر مامور امام العصر علامہ سیّد محمد انور شاہ کشمیریؒ نے امیر شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو پانچ سو علماء کے اجلاس میں محاذ ختم نبوت کا سالار مقرر فرمایا تو مجلس احرارِ اسلام نے تحفظ ختم نبوت اپنا نصب العین بنالیا، اس کے لئے باقاعدہ شعبۂ تبلیغ جاری کیا گیا اور اسی کے تحت ۲۰ تا ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو قادیان میں پہلی ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ یہ تحفظ ختم نبوت کے لئے جماعتی سطح پر تحریک کا آغاز تھا۔
اگست ۱۹۴۷ء کو قیامِ پاکستان کے بعد فتنۂ قادیانیت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ یہاں منتقل ہوا اور صوبہ پنجاب کے زرخیز علاقے دریائے چناب کے کنارے ربوہ کے نام سے قادیانیوں نے اپنی ریاست قائم کرلی۔ وزیر خارجہ ظفراللہ قادیانی کی شہ پر قادیانی ملکی کلیدی و حساس عہدوں پر دندنانے لگے۔ اس صورت حال کے پیش نظر جنوری ۱۹۴۹ء میں امیر شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی قیادت میں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔
اس جماعت نے ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریک ہائے ختم نبوت میں قادیانی منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالنے کے لئے امت کی قیادت کی اور آئین پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا،امتناع قادیانیت آرڈی نینس کے تحت قادیانیوں پر شعائر اسلام استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ان تمام تر کامیابیوں کے پیچھے عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا بنیادی عنصر کارفرما ہوتا ہے، جو ختم نبوت کانفرنسوں کے عنوان سے مسلمانوں کے ایمان کو تازگی بخشتا ہے۔
امیر شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی قیادت میں شروع ہونے والا مجلس تحفظ ختم نبوت کا کارواں خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ،مفکر ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، مناظر اسلام حضرت مولانا لال حسین اختر ؒ، فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ، محدث العصر حضرت علامہ سیّد محمد یوسف بنوریؒ سے ہوتا ہوا جب خواجۂ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کی قیادت میں آیا تو اسے بیرون ملک بھی قادیانیوں کی سرکوبی کا موقع ملا اور قادیانیوں کی پناہ گاہ لندن میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس کا اجرا ءہوا، اب تو برطانیہ کی کئی مسلم تنظیموں نے یہ بیڑا اٹھالیا ہے۔ قادیانی سربراہ مرزا طاہر کے لندن فرار کے بعد ۱۹۸۴ء میں پہلی ختم نبوت کانفرنس منعقد کی گئی۔ وطن عزیز پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور قصبات میں ماہِ ستمبر کے خصوصی موقع پر ختم نبوت کانفرنسوں کا سلسلہ ہوتا ہے، کیونکہ ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو آئین پاکستان نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔
قادیانی جو پہلے ہی قرآن و سنت و اجماع امت کی روشنی میں کافر تھے، پاکستان میں آئینی سطح پر بھی کافر تسلیم کیے گئے۔ قرآن کریم کی ۱۰۰ آیات کریمہ، ۲۱۰ احادیث نبویہ اور امت مسلمہ کا پہلا اجماع عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ پر ہوا ۔ سب سے پہلے غازی ختم نبوت حضرت فیروز دیلمیؓ ہیں، جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے حکم پر پہلے جھوٹے مدعی نبوت اسود عنسی کو قتل کیا۔
سب سے پہلے مجاہد ختم نبوت حضرت ابو مسلم خولانی (عبداللہ بن ثوبؒ) ہیں جنہیں اسود عنسی نے اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان نہ لانے کی پاداش میں زندہ آگ میں جلانے کی کوشش کی، مگر اللہ کے حکم سے آگ ان پر ٹھنڈی ہوگئی۔ سب سے پہلے شہید ختم نبوت حضرت حبیب بن زیدؓ ہیں جنہیں ختم نبوت کے دوسرے بڑے منکر مسیلمہ کذاب نے ٹکڑے ٹکڑے کرکے شہید کیا۔ سب سے پہلے اسیرِ ختم نبوت حضرت عبداللہ بن وہب اسلمیؓ ہیں، جنہیں مسیلمہ کذاب نے گرفتار کرکے جیل میں ڈالا، پھر حضرت خالد بن ولیدؓ نے جنگ یمامہ کے روز انہیں جیل سے چھڑایا۔
سب سے پہلے سالارِ ختم نبوت حضرت ضرار بن ازورؓ ہیں جنہیں آنحضرتﷺ نے نبوت کے تیسرے ڈاکو طلیحہ اسدی کی سرکوبی کے لئے لشکر تیار کرکے روانہ فرمایا تھا۔ عہد نبوت میں ختم نبوت کی پہلی جنگ طلیحہ اسدی کے خلاف لڑی گئی، جب کہ عہد خلافت راشدہ میں اسلام کی پہلی جنگ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے یمامہ کے مقام پر مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی۔ سب سے پہلے محافظ ختم نبوت کا اعزاز خلیفۂ اول سیّدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حاصل ہے، جنہوں نے سرکاری سطح پر تحفظ ختم نبوت کا فریضہ سرانجام دیا اور موجودہ جمہوری دنیا میں پاکستان وہ پہلا اسلامی ملک ہے جہاں آئینی و سرکاری سطح پر فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کی گئی۔
تحفظ ختم نبوت پاکستان کی بقا و سلامتی کی واحد ضمانت ہے۔ عقیدئہ ختم نبوت کا تحفظ پوری امت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرو دینے والی مضبوط کڑی ہے۔ آئین پاکستان نے اسلامیانِ پاکستان کو ان کے حکمران کے مسلمان ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے، کوئی قادیانی پاکستان کا حکمران کبھی نہیں بن سکتا، چنانچہ قومی اسمبلی میں تحفظ ختم نبوت کے وفد کی قیادت کرنے والے، قادیانی کفر کے مقابلے پر ملت اسلامیہ کا موقف پیش کرنے والے، قائد جمعیت علمائے اسلام، مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا ارشاد ہے: ’’سن لیجئے! پاکستان کا حکمران صرف وہی بن سکتا ہے جو اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت، ختم نبوت اور آخرت پر یقین رکھتا ہو۔‘‘ پاکستان نے ہمیشہ تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ملت اسلامیہ کی قیادت کی ہے، رابطہ عالم اسلامی سے لے کر بیرونی عدالتوں تک اور مختلف ممالک نے قادیانیوں کو غیر مسلم مانا ہے اور حجاز مقدس کی سرزمین پر ان ناسوروں کا داخلہ بند ہوا ہے تو پاکستان کے علماء و عوام کی کوششوں سے ہوا۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے تحت سال رواں۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کے تاریخ ساز فیصلے کو ۵۰ سال مکمل ہونے کی خوشی میں جشن ِ زرّیں ( گولڈن جوبلی) منانے کا فیصلہ کیا گیا ، جانشین ِ مفتی محمودؒ حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ نے اسے یوم الفتح کے نام سے موسوم کیا ہے ۔ یہ کانفرنس ۷ ستمبر ۲۰۲۴ ء بروز ہفتہ مینارِ پاکستان لاہور میں منعقد ہونے جا رہی ہے ۔ تحفظ ختم نبوت کی تاریخ میں زندہ دلانِ لاہور کا اَن مٹ کردار رہا ہے ، پہلی تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کے موقع پر لاہور میں دس ہزار مسلمانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے ، اسی قربانی نے ۱۹۷۴ء میں حاصل ہونے والی کامیابی کو بنیاد فراہم کی۔
تحفظ ختم نبوت کی مضبوط عمارت کے سنگِ بنیاد کو زندہ دلانِ لاہور کے خون سے سیراب کیا گیا تب کہیں جا کر اسلام کے چمن میں بہار آئی ، ان شہدائے ختم نبوت کا مقدس لہو رنگ لایا تو وطن عزیز کا چمنستان سر سبز و شاداب ہوا ، یہ کانفرنس ان شہدائے ختم نبوت کو خراجِ عقیدت ہے ۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی موجودہ قیادت امیر مرکزیہ حضرت مولانا حافظ ناصرالدین خاکوانی، نائب امیر مرکزیہ صاحبزادہ حضرت مولانا عزیزاحمد اور صاحبزادہ حضرت مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوری، مرکزی ناظم اعلیٰ حضرت مولانا عزیزالرحمٰن جالندھری کی راہنمائی میں شاہین ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا، مرکزی ناظم تبلیغ حضرت مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی، حضرت مولانا عزیزالرحمٰن ثانی، حضرت مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ، حضرت مولانا مفتی محمد راشد مدنی، حضرت مولانا قاضی احسان احمد، مولانا مفتی محمد شہاب الدین خان پوپلزئی اور تقریباً ۴۰ مبلغین ملک بھر میں صدائے تحفظ ختم نبوت لگاتے پھررہے ہیں۔
انشاء اللہ شہر لاہور میں ہونے والی یہ کانفرنس اپنی تاریخ آپ مرتب کرے گی اور فقیدالمثالی ریکارڈ بنائے گی۔ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کانفرنس کی تشہیر میں بھرپور حصہ لیں، اس میں شرکت کی ترغیب عام کریں اور احباب سمیت اس میں شریک ہوکر اسے کامیاب بنانے میں اپنا کردار نبھائیں۔
اس کانفرنس سے قائد جمعیت علمائے اسلام و سرپرست وفاق المدارس العربیہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، جانشین خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب لیاقت بلوچ، امیر جمعیت اہلحدیث سیّد ضیاء اللہ شاہ بخاری، بین الاقوامی شاعر و مداح رسول جناب سیّد سلمان گیلانی سمیت ملک بھر کی دینی و سیاسی قیادت و لیڈران خطاب فرمائیں گے۔
اس کانفرنس میں شرکت کرکے اپنا ایمان بڑھایئے اور یقین کو تازگی بخشیے۔ تحفظ ختم نبوت ہر کلمہ گو مسلمان کا دینی فریضہ ہے، جس سے کبھی بھی سرِمُو انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ ۲۰۰ ا /صحابہ کرامؓ و تابعینؒ نے مسیلمہ کذاب کے خلاف جانوں کی قربانیاں دے کر تحفظ ختم نبوت کی مضبوط نیو اٹھائی ہے۔
شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ کا فرمان ہے: ’’رسول اللہﷺ کی ختم نبوت کے لئے کام کرنا حضور انورﷺ سے محبت کی اور آپ کے بدترین دشمن مرزا قادیانی سے بغض کی علامت ہے۔‘‘ شاہین ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا مدظلہ فرماتے ہیں: ’’جو لوگ ختم نبوت کا کام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی ان کے ساتھ ہے اور آنحضرتﷺ کی شفاعت بھی قیامت کے دن ان کے ساتھ ہوگی، ان شاء اللہ! یہ ملک پاکستان بھی قائم رہے گا، ملت اسلامیہ بھی رہے گی اور حضور اکرمﷺ کی ختم نبوت بھی رہے گی ان شاء اللہ! ‘‘ اگر ہم اس میں اپنا حصہ شامل کرلیں تو یہ ہمارے لئے سعادت ہوگی، اللہ تعالیٰ توفیق عمل نصیب فرمائے۔(آمین ثم آمین)