خواتین کے لیے بطور ڈیلیوری رائیڈر کیا اسکوپ ہے، اُنھیں کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے، وہ’’ ہوم شیفس‘‘ کے طور پر کس طرح کاروباری سرگرمیوں کا حصّہ بن سکتی ہیں، اِس طرح کے سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے حسن ارشد سے رابطہ کیا، جنھیں صفِ اوّل کے کئی ای کامرس اداروں کے ساتھ مُلک و بیرونِ مُلک کام کا وسیع تجربہ ہے اور اِن دنوں فوڈ پانڈا کے ڈائریکٹر پبلک پالیسی اینڈ کمیونی کیشنز کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اُنھوں نے پاکستان میں اِی کامرس کی وسعت کے ضمن میں پوچھے گئے سوال پر بتایا۔’’ہمارے ہاں فِری لانس بیسڈ اکانومی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ دس لاکھ سے زاید افراد مختلف کمپنیز کے پلیٹ فارمز سے بطور موٹر سائیکل رائیڈرز اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں۔ اِن میں سے ساٹھ فی صد افراد یومیہ دو، تین گھنٹے کام کرتے ہیں۔ یہ کسی کمپنی کے باقاعدہ ملازم نہیں، بلکہ فری لانس کام کرتے ہیں، یعنی جب چاہا کام کیا،جب چاہا گھر چلے گئے۔ اگر کوئی رائیڈر یومیہ8 گھنٹے اور ہفتے میں چھے دن کام کرے، تو وہ عموماً ماہانہ پچاس ہزار روپے تک کما لیتا ہے۔
یہ بائیک رائیڈر سفری سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ فوڈ، گروسری آئٹمز اور دیگر اشیاء بھی صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ کووِڈ کے دِنوں میں اِس طرح کی سروسز زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئیں، جب شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹس بند، جب کہ کھانے پینے کے مراکز میں بھی بیٹھنے پر پابندیاں عاید تھیں، ایسے میں عوام نے گھر بیٹھے فوڈ آئٹمز یا گروسری منگوا کر اپنی ضروریات پوری کیں۔ خود ہم نے مُلک بھر میں سیکڑوں مارٹ قائم کیے ہیں، جن سے لاکھوں افراد استفادہ کر رہے ہیں اور اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔‘‘مارٹس یا ریسٹورنٹس میں کوالٹی برقرار رکھنے کے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں؟
اِس سوال پر اُن کا کہنا تھا۔’’پراڈکٹ کی کوالٹی کے ضمن میں ہمارے معیارات بہت سخت اور عالمی اصول و ضوابط کے مطابق ہیں۔ گوشت ہو یا سبزیاں، یا پھر مارٹ پر موجود کوئی بھی شئے، سپلائرز پر پوری طرح چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے۔تمام کمپنیز کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر کسی کسٹمر کو ناقص چیز دی گئی، تو وہ آیندہ اُس کمپنی کے پاس نہیں آئے گا اور اُس کا باقی اشیاء کے معیار سے بھی اعتماد اُٹھ جائے گا۔ہم کسٹمر سے فیڈ بیک لیتے ہیں۔
سرکاری فوڈ اتھارٹیز سے تمام تر منظوریاں حاصل کرتے ہیں۔ ریسٹورینٹس کی رجسٹریشن کے ضمن میں حفظانِ صحت کے تمام قانونی تقاضے پورے کیے جاتے ہیں اور کسی بھی فوڈ پوائنٹ سے متعلق صارف اور رائیڈر کے فیڈ بیک کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے، جب کہ کسی شکایت پر فوراً کارروائی بھی ہوتی ہے، پھر یہ کہ ہم نے مختلف شہروں میں اسٹیٹ آف دی آرٹ کلاؤڈ کچنز بھی قائم کیے ہیں، جہاں سے ریسٹورینٹس مالکان استفادہ کرسکتے ہیں۔
اِسی طرح’’ ہوم شیفس‘‘ ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس15 سے20 ہزار رجسٹرڈ شیفس ہیں، جن میں ستّر فی صد خواتین ہیں اور اُنھیں صرف ڈیلیوری ہی نہیں، سیٹ اَپ سے متعلق بھی مکمل معاونت فراہم کی جاتی ہے۔
سرکاری فوڈ اتھارٹیز کے ساتھ مل کر اُن کے لیے تربیتی سیشنز کروائے جاتے ہیں، جس میں ایپ کے استعمال اور پروڈکشن وغیرہ سے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہے۔آن لائن پورٹل، ویب سائٹ اور رابطہ نمبرز دست یاب ہیں، جن پر خواہش مند افراد رابطہ کرسکتے ہیں۔
ہماری سیلز ٹیم فوراً ریسپانس دیتی ہے۔ کچن، مینیو اور آرڈرز پورے کرنے کی صلاحیت دیکھنے کے بعد اُنھیں رجسٹر کرلیا جاتا ہے۔ ڈیلیوری رائیڈرز سے پہلے قومی شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائیسنس سمیت تمام اہم ڈاکیومینٹس حاصل کیے جاتے ہیں، پھر پولیس کے ذریعے بیک گراؤنڈ چیک کروایا جاتا ہے کہ کوئی کرمنل ریکارڈ تو نہیں ہے۔
ٹریفک پولیس اور دیگر کے تعاون سے اُنھیں بھی ایپ کے استعمال، ڈیلیوری، کسٹمرز سے رویّے اور سیفٹی کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہر رائیڈر کی انشورنس ہوتی ہے،یہاں تک کہ اُن کے موبائل فون کی بھی۔ نیز، مختلف اداروں کے ساتھ مل کر اُنھیں فیول، ٹائرز یا آئل چینجنگ وغیرہ پر ڈسکاؤنٹ بھی دِلواتے ہیں۔دوسری طرف، اُن کی سخت مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے، جس کے لیے مانیٹرنگ ٹیم کے ارکان اِدھر اُدھر گھومتے رہتے ہیں۔
اگر کسٹمر کسی رائیڈر سے متعلق شکایت کرے، تو اُس کا فوراً نوٹس لیا جاتا ہے۔ رائیڈرز کے بیگز کے ضمن میں بھی متعلقہ اتھارٹیز کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ کوئی ایسا معیار مقرّر ہو، جس سے موسم کی شدّت میں بھی فوڈ کوالٹی برقرار رہ سکے۔
ماحولیاتی مسائل کے تناظر میں ہمارے تمام مارٹ پلاسٹک فِری رکھے گئے ہیں اور اس مقصد کے لیے خصوصی بیگز متعارف کروائے ہیں، جب کہ رجسٹرڈ ریسٹورنٹس کو بھی پلاسٹک استعمال نہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔علاوہ ازیں، رائیڈرز کو الیکٹرک بائیکس دے رہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ حکومتیں اس پر کام کر رہی ہیں، تو ہم چاہتے ہیں کہ جنھیں یہ بائیکس ملیں، وہ اِن کے ذریعے روزگار بھی حاصل کرلیں۔‘‘
حسن ارشد کا حکومتی تعاون سے متعلق کہنا ہے کہ’’موجودہ حالات میں اِی بزنس پر فوکس کیا جانا چاہیے، قوانین ضرور بننے چاہئیں، مگر یہ کاروبار دوست ہوں۔نئی حکومت اِس ضمن میں بہت کام کر رہی ہے، البتہ مشاورتی عمل کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
انٹرنیٹ جیسے مسائل سے بھی پیچیدگیاں ہوتی ہیں، کوئی ایسا نظام وضع کرنا چاہیے، جس سے قومی سلامتی متاثر نہ ہو اور لوگوں کے کاروبار بھی چلتے رہیں۔ جیسے کوِوڈ کے دَوران ڈیلیوری رائیڈرز کو خصوصی سہولتیں دی گئی تھیں۔ حکومت کو شفافیت کے ساتھ ٹیکس ادا کرتے ہیں، تو ٹیکس کی شرح پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔