بجلی اور گیس سیکٹرز کے گردشی قرضے جو مجموعی طور پر پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے سے اوپر پہنچ چکے، پر سب کو فکر ہے جو ہونی بھی چاہیے۔ آئی پی پیز سالانہ جو کوئی دو ہزار ارب روپے کیپسٹی چارجز کے نام پر قومی خزانہ سے ہڑپ کر جاتے ہیں چاہے بجلی پیدا کریں یا نہ کریں اُس پر بھی سب فکرمند ہیں اور ہونا بھی چاہئے۔ پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز، بجلی تقسیم کرنے والے ڈسکوز اور کچھ دوسرے نقصان میں چلنے والے سرکاری ادارے کئی سو ارب روپے کا ہر سال قومی خزانہ کو نقصان پہنچاتے ہیں جس پر سب بات کرتے ہیں اور بات کرنی بھی چاہیے۔ کرپشن ، ٹیکس چوری بھی ہمارے بہت بڑے مسائل ہیں جن کے متعلق بھی بحث جاری رہتی ہے۔ لیکن ایک معاملہ جو پاکستان کو معاشی طور پر سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ بن چکا ہے اُس پر بات نہیں ہوتی، اُسے حل کرنے کیلئے نہ کوئی کمیٹی بنائی نہ ہی اُس پر کابینہ اور SIFC میں بات ہوتی ہے۔ وہ مسئلہ ہے سود کا جس نے پاکستان کو Debt Trap یعنی قرضوں کے ایک ایسے جال میں پھنسا دیا ہے جس کی وجہ سے حکومت کا سب سے بڑا خرچ سود کی ادائیگی میں ہو رہا ہے اور یہ خرچ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پاکستان کا دفاعی خرچ ہو یا ترقیاتی بجٹ، بجلی گیس کا سرکولر ڈیٹ ہو یا سرکاری اداروں کا نقصان سب کو ملا کر بھی سود کی ادائیگی پر سالانہ خرچ بہت زیادہ ہے۔ پاکستان روزانہ کی بنیاد پر کوئی پچاس ساٹھ ارب روپے قرض لیتا ہے اور یہ قرض سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ لیکن اس طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ سود پاکستان کو کھا رہا ہے، سود پاکستان کے عوام کو کھا رہا ہے، سود نے ہماری معیشت کو تباہ و برباد کر دیا لیکن اس لعنت سے جان چھڑوانے کیلئے نہ کوئی کمیٹی بنائی گئی نہ کوئی ٹاسک فورس۔ باوجود اس کے کہ یہ ایک بہت بڑے گناہ کا کام ہے پھر بھی اس پر کسی کو کوئی پریشانی نہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ نے اس مسئلہ کا حل تجویز کیا جسکےبارے میں دی نیوز میں آرٹیکل لکھے گئے اور میں نے بھی اپنے کالم میں اُس کو اجاگر کیا لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سود کے معاملہ کو گہرائی سے دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ اسکاتعلق بینکوں سے ہے جو عوام کے پیسے یعنی ڈپازٹس کو حکومت کو قرض دے کر کھربوں روپےسود کی مد میں لیتے ہیں۔ جس طرح آئی پی پیز کی طرف آج کل توجہ دی جا رہی ہے کہ کیسے کھربوں روپے کھائے جا رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ بینکوں کے سودی نظام اور اس سے پاکستان کی سالمیت کود رپیش خطرات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور اس لعنت کے خاتمہ کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں۔ ایک خبر کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے چند روز قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھا ہے ، جس میں اُنہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے سودی نظام کوختم کرنے کے فیصلے کے خلاف بینکوں کی اپیلوں کو جلد نمٹایا جائے۔ مولانا نے کہا کہ گزشتہ سال وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کے مالیاتی نظام کے اندر سود کے خاتمہ کیلئے پانچ سال کا ٹائم دیا تھا لیکن اس فیصلے کے خلاف مختلف بینکوں نے سپریم کورٹ اپیلٹ بنچ کے سامنے اپیلیں دائر کر دی تھیں۔ مولانا نے ان اپیلوں کو جلد نمٹانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ پاکستان کے نظام معیشت کو سود جیسی لعنت سے پاک کیا جائے۔ اپنے خط میں مولانا نے چیف جسٹس کو اُن کے مبارک ثانی کیس میں فیصلہ کو لائق تحسین کہتے ہوئے امید ظاہر کی ہےکہ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جلد ہی جاری ہو جائے گا جس سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان پوری طرح مطمئن ہو جائیں گے۔ ان دونوں اہم ترین معاملات پر سپریم کورٹ کو فوری فیصلے کرنے چاہئیں۔مولانا سیاسی طور پر حکومت کے قریب جاتے نظر آ رہے ہیں۔ اُنہیں چاہیے کہ جو مطالبہ سود کے خاتمہ کے حوالے سے اُنہوں نے چیف جسٹس سے کیا ہے اُس بارے میں وزیراعظم سے بھی بات کریں بلکہ حکومت سے تعاون کیلئے سود کے خاتمہ کی شرط عائد کر دیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)