’’جب میں کراچی میں اس مزار کی دیواروں کو (بتدریج) ایک ایک انچ بلند ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں جو میرے بھائی کے جسد فانی کو محفوظ کردینے کے لئے کھڑی کی جارہی ہیں تو میرے ذہن میں اس المناک دن کی یادیں امڈی چلی آتی ہیں جب 11؍ستمبر 1948 کو ہفتہ کے روز میرا بھائی مجھ سے چھین لیا گیا تھا اور میری قوم یتیم ہوگئی تھی اس کے ساتھ میری رفاقت چالیس برس سے زائد عرصے پر محیط رہی ہے۔
اس طویل عرصہ کے دوران میں نے ان کی زندگی کو کس طرح دیکھا تھا، اس بات کا آغاز کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ میں آج صبح ان کی قبر پر حاضری دوں ،ان کے لئے فاتحہ خوانی کروں، انہیں پھولوں کا نذرانہ پیش کروں اور ان کے لئے آنسو بہاؤں، کیونکہ انسان جن سے محبت کرتا ہے جب وہ بچھڑ کر دوسرے جہاں چلے جائیں تو انہیں کوئی ان چیزوں کے سوا بھلا کیا دے سکتا ہے۔ وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
قدرت نے انہیں بے پناہ قوت اور توانائی ودیعت کی تھی ۔ یہ وصف انکے بظاہر ناتواں اور کمزور جسم میں پنہاں کردیا گیا تھا۔ اور انکی ذات صلاحیتوں سے معمور دل و دماغ قوت ارادی کی تیز رفتاری کے ساتھ قدم ملاکر چلن کے قابل نہیں تھی۔ زیادہ المناک بات یہ تھی کہ ان کی صحت ایسی نہیں تھی جو بے پناہ مصائب و مشکلات کے مقابلے میں ان کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کا ساتھ دے سکتی اور انہیں وہ قوت فراہم کرسکتی جس کی انہیں ضرورت تھی ۔ زندگی کے آخری دس برس کے دوران ان کی سیاسی سرگرمیوں اور ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا، جب کہ وہ بڑھاپے کی سرحدوں میں پہلے ہی داخل ہوچکے تھے۔
ڈاکٹروں کے مشورے اور چھوٹی بہن کی التجاؤں کے باوجود انہوں نے اپنا کوئی خیال نہ رکھا۔ وہ آرام یا اپنے کام کی رفتار میں کمی سے مسلسل انکار کرتے رہے وہ زندگی کےباقی ماندہ ذخیرے کو کسی کھلنڈرے بچے کی طرح بے دریغ لٹاتے رہے۔ ان کی خرابی صحت سے خوف زدہ ہوکر میں جب کبھی ان سے مسلسل اتنازیادہ کام نہ کرنے کی التجا کرتی یا ہندوستان بھر کے طوفانی دوروں کا پروگرام کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کردینے کا مشورہ دیتی ،وہ کہتے، کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کسی جنرل نے چھٹی کی ہو جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو؟ انہیں کمال حاصل تھا کہ وہ بنا بنایا مقدمہ ایک جملے میں اڑا دیتے تھے۔
میری بھلا کیا حیثیت تھی کہ انہیں قائل کرسکتی ۔ایسے مواقع پر میں عموماً دلائل کے بجائے جذبات کا سہارا لیا کرتی تھی ۔ میں کہتی آپ کی زندگی قیمتی ہے اور آپ کو اس کی مناسب دیکھ بھال کرنی چاہیئے۔ ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات اُبھرتے، وہ کہتے فرد واحد کی صحت کیا حیثیت رکھتی ہے جب کہ ہندوستان میں دس کروڑ مسلمانوں کے بارے میں پریشان ہوں۔ کیا تم جانتی ہو کہ(مسلمان قوم) کس خطرے میں ہے؟ ان کا کہنا جذبات کو سرد کردینے کے لئے کافی ہوتا ،بعد ازاں وہ اپنی صحت کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے سیاست کے طلاطم خیز سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جاتے۔
قیام پاکستان کا مطالبہ تسلیم کیا جاچکا تھا اور پاکستان 14-15 اگست کی درمیانی شب معرض وجود میں آچکا تھا ۔ قائد اعظم کے لئے یہ تکمیل کا ایک لمحہ تھا منزل قریب آگئی تھی مگر سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ دنیا کے سیاسی نقشے پر ابھرنے والی اس مملکت کو ابھی کئی بڑے بڑے اور سنگین مسائل کا سامنا تھا۔ سربراہ مملکت کی حیثیت سے پاکستان کی تقدیر کی کشتی کو ایک محفوظ ساحل تک لیجانے کا کام ان کے ہاتھوں میں تھا۔ اور وہ کام کی کثرت سے تھک چکے تھے۔ میں نے انتہائی افسوس اورکرب کے ساتھ دیکھا کہ ،کامیابی کے اس عظیم لمحہ میں قائد اعظم کی جسمانی صحت کسی بھی لحاظ سے اطمینان بخش نہ تھی۔
ان کی بھوک برائے نام رہ گئی تھی بلکہ بالکل ہی ختم ہوگئی تھی۔ انتہائی توجہ اور محبت سے بنائے گئے کھانے بھی انہیں اپنی طلب پر آمادہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی زندگی بھر کی اپنی مرضی سے سوجانے کی عادت اب عنقا ہوچکی تھی اور وہ مسلسل کئی کئی راتوں تک بے خوابی کے عالم میں تکیوں پر کروٹیں بدلتے اور جاگتے رہتے تھے۔ ان کی کھانسی میں اضافہ ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ حرارت بھی اب زیادہ رہنے لگی تھی۔
پاکستان کی سرحد کے اس پار سے مسلمانوں کے قتل عام، آبروریزی، آتش زنی اور لوٹ مار کے لرزہ خیز واقعات نے قائد اعظم کے ذہن پر شدید اثرات مرتب کئے تھے۔ سربراہ مملکت کی حیثیت سے وہ مہاجرین کے لئے جو کچھ کرسکتے تھےانہوں نے کیا۔حالات کے المناک رخ اور قوم کو درپیش مشکلات نے نہ صرف جسم بلکہ ان کے جذبوں اور روح تک کو تھکا دیا تھا ۔ وہ ایک بار پھر بیمار ہوگئے۔
قائداعظمؒ یکم جولائی 1948 کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت قبول کرچکے تھے ، افتتاحی تقریب کی صبح وہ اپنے بستر سے لگے پڑے تھے۔ اس کے باوجود وہ تیار ہوئے اور تقریب میں موجود معزز مہمانوں کے سامنے اپنا خطاب پڑھا۔ کراچی میں پانچ روز قیام کے بعد انہوں نے بعض انتہائی اہم فائلیں دیکھیں اور دیگر کام کیے،اس کے بعد ہم ہوائی جہاز سے کوئٹہ واپس پلٹ آئے ۔گرچہ سفر کے دوران وہ ٹھیک رہے مگر اگلے ہی روز سے ان کی طبیعت میں اضمحلال اور تھکاوٹ کے اثرات نمایاں ہونے لگے تھے۔
ہلکا بخار بدستور تھا، جس سے ان کی بے آرامی اور میری تشویش بڑھ گئی۔ ایک بار پھر کوئٹہ میں مختلف اداروں کی طرف سےانہیں دعوت نامےموصول ہونے لگے۔ایک روز انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم کوئٹہ سے زیارت چلےجائیں، جہاں کا موسم کوئٹہ سے زیادہ ٹھنڈا اور یقیناً آرام دہ ثابت ہوگا۔ زیارت کی ریذیڈنسی جہاں ہم ٹہرے ایک پرانی دو منزلہ عمارت میں واقع بلند و بالا پہاڑی پر کسی مستعد چوکیدار کی طرح کھڑی تھی، اس کے لان اور گارڈن وسیع تھے جہاں پرندے صبح ںغمہ حمد گاتے اور شام کو چہچہاتے، پھل دار درختوں کا ایک جُھنڈ اور پھولوں کے تختے یہاں کے منظر کی خوبصورتی کو دوبالا کرتے۔ قائداعظمؒ اس خاموشں اوردل کشی منظر پر فریفتہ ہوگئے۔ کمشنر کوئٹہ ڈویژن کی اہلیہ مسز خان نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر ریاض علی شاہ اپنے ایک مریض کو دیکھنے کے لئے زیارت آئے ہوئے ہیں، ان کے خیال میں ان سے قائداعظمؒ کا معائنہ کرانا مفید رہے گا۔
جب میں نے یہ تجویز بھائی کے سامنے رکھی توانہیں نے سختی سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ، انہیں کوئی زیادہ سنگین مرض لاحق نہیں ہے اور اگر صرف ان کا معدہ خوراک کو آسانی سے ہضم کرنے لگے تو وہ جلدہ ہی دوبارہ تندرست ہوجائیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ صحت کو اپنی مرضی کے تابع رکھ سکتے ہیں تاہم اب انہیں یہ بھی احساس رہنے لگا تھا کہ یہ کوششیں ناکامی سےدو چار ہونے لگی ہیں۔ پس پہلی بار ان کی صحت نے خود انہیں خطرے کا الارم دینا شروع کیا۔ ایک روز علی الصبح جب انہوں نے رضا مندی ظاہر کی کہ اب انہیں صحت کے بارے میں مزید خطرات مول نہیں لینے چاہیئں ،مناسب طبی مشورہ اور دیکھ بھال کی ضرروت ہے تو مجھے بیحد خوشی ہوئی۔
میں نے وقت ضائع کئے بغیر قائداعظمؒ کے پرائیویٹ سیکریٹری مسٹر فرخ امین سے کہا کہ وہ کابینہ کے سیکریٹری جنرل سے کہیں کہ ،کرنل الہی بخش کو فوری طور پر بذریعہ ہوائی جہاز زیارت بھجوانے کا انتظام کریں ۔ یہ اکیس جولائی ۱۹۴۸ کا واقعہ ہے ۔ ۲۳ جوالائی ۱۹۴۸ کو مجھے فرخ امین کی زبانی یہ جان کر اطمینان ہوا کہ کرنل الہی بخش پہنچ چکے ہیں اور قائداعظمؒ کے معاٗنے کے لئے نچلی منزل پر منتظر ہیں۔ میں نے یہ خوش خبری اپنے بھائی کو سنائی تو انہوں نے جوش سےخالی لہجے میں کہا ڈاکٹر سے کہو کہ وہ کل صبح دیکھنے کے لئے آئے، شام زیادہ ہوچکی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھے ڈسٹرب کرنے۔
ڈاکٹر کی آمد کی خبر کو انہوں نے جس انداز میں لیا تھا اس پر مجھے حیرت ہوئی اور میں نے محبت بھرے انداز کا سہارا لے کر ان سے درخواست کی کہ، وہ ڈاکٹر کو معائنہ کرنے کی اجازت دیں کیونکہ اپنی زندگی سے کھیلنا دانش مندی نہیں۔ اس کے جواب میں ان کے چہرے پر ایسی دلکش مسکراہٹ پھیلی کہ مجھے مکمل طور پر پسپا ہوتے ہوئے ان کی بات ماننا پڑی۔ اگلی صبح ڈاکٹر الہی بخش نے قائد اعظم سے بیماری اور اس کی سابقہ علامات وغیرہ سے متعلق استفسار کیا۔ قائدا عظم نے اپنی بیماری کی مختصر تفصیل ڈاکٹر کو بتا دی ۔
ان دنوں کسی کو قائد اعظم سے ملنے کی اجازت نہیں تھی مگر جب واشنگٹن میں متعین پاکستانی سفیر مسٹر اصفہانی زیارت میں ہمارے گھر آئے تو قائداعظمؒ ان سے مل کر بہت خوش ہوئے ۔وہ قائداعظمؒ کے قریبی ساتھی تھے۔ اپنے لیڈر کو دیکھ کر جب مسٹر اصفہانی نیچے اترے تو ان کی آنکھوں میں آنسو سے بہہ نکلے۔ وہ اس ماہر سیاست دان کو جس نے بہت سی سیاسی لڑائیاں لڑی تھیں ،بے بسی سے بستر پر پڑے اپنی زندگی کی جنگ لڑتے دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ سکے تھے۔
جولائی کے آواخر میں وزیراعظم لیاقت علی خان کسی پیشگی اطلاع کے بغیر چودھری محمد علی کے ہمراہ زیارت پہنچ گئے ، جونہی مجھے بتایا گیا کہ وزیراعظم اور سیکریٹری جنرل ان سے ملنا چاہتے ہیں میں فوراً ان کے پاس پہنچی اور ان لوگوں کی آمد کی اطلاع دی۔ چندمنٹ بعد قائداعظمؒ نے فرمایا ، وزیراعظم کو بتایئے کہ میں ان سے ملاقات کروں گا، اس وقت دیر ہوچکی ہے آپ ان لوگوں سے کل صبح ملاقات طے کرلیجیئے گا۔ نہیں نہیں اسی وقت آنے دیجئے میں نے کہا۔
قائداعظمؒ اور لیاقت علی خان کے درمیان ملاقات تقریباً نصف گھنٹہ تک جاری رہی، جونہی لیاقت علی خان نچلی منزل پر آئے، میں اوپر اپنے بھائی کے پاس چلی گئی۔ وہ بری طرح تھک چکے تھے اوران کی آنکھوں سے بھی بیماری کے آثار نمایاں ہورہے تھے۔ انہوں نے مجھے فروٹ جوس لانے کو کہا اور پھر بولے مسٹر محمد علی کو بھیجوا دیجیئے۔
کابینہ کے سیکریٹری جنرل تقریبا پندرہ منٹ قائداعظمؒ کے ساتھ رہے ۔جب قائداعظمؒ ایک بار پھر تنہا ہوئے تو میں ان کے کمرے میں چلی گئی اور ان سے پوچھا کہ وہ جوس پینا پسند کریں گے یا کافی ۔ مگر ان کا ذہن میری بات کا جواب دینے کے بجائے شاید کسی اور ہی بات میں الجھا ہوا تھا۔ رات کے کھانےکا وقت ہورہا تھا انہوں نے کہا ’’ بہتر ہوگا آپ نیچےجائیں۔ وہ یہاں ہمارے مہمان ہیں، ان کے ساتھ کھانا کھایئے۔
چودہ اگست قریب آرہی تھی، جب ہماری قوم کو آزادی کی پہلی سالگرہ منانا تھی ۔ یوم آزادی پر جاری کئے جانے والے پیغام میں قائد اعظم نے کہا ’’یاد رکھیئے پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ مجھے اپنی قوم پر پورا اعتماد ہے۔ اس نوزائیدہ مملکت کا پیدائش کے وقت گلا گھونٹ دینے کی کوشش میں ناکامی کے بعد ہمارے دشمنوں کو اب بھی امید ہے کہ وہ اقتصادی ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے دل میں جو تعصب اور بدنیتی ہے ،جس قدر دلائل مہیا کرسکتے ہیں اور ان کے ذریعے جتنی بھی حیلہ سازی کی جاسکتی ہیں ان تمام کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان دیوالیہ ہوکر رہ جائےگا۔
دشمن کی گولی اور تلوار جو مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی وہ مملکت کی تباہ شدہ مالی اور اقتصادی حالت کےباعث پورا ہوسکتا ہے مگر برائی کے ان پنڈتوں کے سب دعوے باطل ثابت ہوچکے ہیں۔ ہمارا اولین بجٹ ہی ایک فاضل بجٹ تھا۔ تجارت کا توازن بھی ہمارے حق میں رہا اور اقتصادی شعبے میں بحیثیت مجموعی ترقی ہورہی ہے۔ چند روز بعد ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ قائداعظمؒ کا بلڈ پریشر بہت کم ہوگیا ہے ان کے پاوں پر ورم آگیا ہے اوران کے پیشاب کی مقدار بڑی حد تک کم ہوگئی ہے۔ تاہم طویل صلاح و مشورے کے بعد ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ قائداعظمؒ دل اور گردوں کی کمزوری میں مبتلا ہیں۔
ان کی صحت کے باعث زیارت میں ان کا قیام مناسب نہیں ہے ۔قائداعظمؒ نے اس مشورے پر اتفاق کیا مگر انہوں نے اصرار کیا چودہ اگست کے بعد ہی کوئٹہ منتقل کیا جائے ۔ کیونکہ اس روز ہماری آزادی کی پہلی سالگرہ منائی جارہی ہے۔ ڈاکٹر اس وقت تک انتظار کرنے کے لئے تیار نہ تھے اور اس طرح بالاخر ہم لوگ تیرہ اگست کو زیارت سے کوئٹہ روانگی کے لئے تیار ہوگئے۔ قائداعظمؒ نے اصرار کیا کہ وہ پاجامہ سوٹ میں سفر نہیں کریں گے کیونکہ ان کے بقول انہوں نے پوری زندگی کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔
میں خوش تھی کہ وہ مسلسل زندگی سے دلچسپی کا اظہارکررہے ہیں، چنانچہ میں ان کے لئے ایک بالکل نیا سوٹ نکال کرلائی جو انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں پہنا تھا اس کے ساتھ میچ کرتی ہوئی ٹائی بھی نکال لی۔ اور رومال سوٹ کی آرائشی جیب میں سجا دیا۔ جمک دار پمپ شوز انہیں پہنائے ۔ ایک اسٹریچر پر لٹا کر ریذیڈینسی کی دوسری منزل سے نیچے لایا گیا اور تکیہ لگا کر نیم دراز پوزیشن میں ایک بڑی کار کی پچھلی نشست پر بٹھا دیا گیا۔
اس کار میں ہم نے زیارت سے کوئٹہ تک کا سفر کیا۔ جھٹکوں اور ہچکولوں سے بچنے کے لئے کار سست رفتاری سے سفر کرتی رہی ۔ راستے میں ہم دوبار رکے۔ میں نے انہیں چائے اور بسکٹ دیئے۔ ہمیں کوئٹہ پہنچنے میں چار گھنٹے لگے اور مجھے ہر لمحہ یہی خدشہ لگا رہا کہ وہ اس سفر کی صعوبت کو برداشت کر بھی پائیں گے یا نہیں۔
کوئٹہ ریذیڈنسی پہنچتے ہی ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا۔ اور کہا کہ قائداعظمؒ کا سفر بخیریت طے ہوا ہے ۔قائد نے چند گھنٹوں کے بعد ڈاکٹروں سے کہا،میں یہاں زیادہ بہتر محسوس کررہا ہوں ۔ زیارت میں مجھے سانس لینے میں دشواری محسوس ہورہی تھی۔ان کی صحت اب بہتر ہونے لگی تھی۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے مشورہ دیا کہ وہ روزانہ تقریبا ایک گھنٹہ فائلوں وغیرہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ہر وقت اپنی صحت کے متعلق سوچتے رہنے کی بجائے زیادہ بہتر ہو گا انہیں کام کی جانب مبذول کر دیا جائے ۔ قائد بہت خوش تھے، انہوں نے اس آزادی کا بڑے مزے سے لطف اٹھایا۔
چند روز کے بعد ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ اپنے کمرے کے اندر چند قدم چلنا شروع کر دیں تا کہ اس عمل سے ان کے خون کی گردش میں آسانی پیدا ہو سکے ۔ انہوں نے ڈاکٹروں کا یہ مشورہ مسکرا کر قبول کر لیا۔ وہ ایک بار پھر خوش تھے کہ کئی ہفتوں کے بعد وہ بیماری سے اٹھ کھڑے ہونے کے قابل ہو چکے تھے۔ یہ بات خاصی حوصلہ افزا تھی کہ ان میں ابھی تک جدو جہد جاری رکھنے کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ دیر توقف کے بعد کہا: ڈاکٹرمیں سگریٹ پینا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر الٰہی بخش نے پُر یقین لہجے میں کہا: "یس سر" صرف ایک سگریٹ روزانہ سے شروع کیجئے مگر اس کا دھواں نہیں نگلیے گا۔ شام کو ڈاکٹر آیا۔ اس نے ایش ٹرے میں سگریٹ کے پانچ جلے ہوئے ٹکڑے پڑے دیکھے تو اپنے مریض کی جانب دیکھا، قائداعظم نے مسکراتے ہوئے فرمایا، ہاں ڈاکٹر، میں نے پانچ سگریٹ پی لئے ہیں ،مگر میں نے ان کا دھواں نہیں نگلا۔ اس کے بعد کھکھلا کر ہنسے، ایک بچے کی طرح خوش۔
اس برس عید الفطر 27 اگست کوتھی اور وہ عید کی مناسبت سے قوم کے نام اپنا پیغام تیار کرنے میں مصروف تھے۔ یہ ان کی سیکڑوں تقاریر کا اختتام ثابت ہوئی جو انہوں نے اپنے طویل سیاسی کیریئر کے دوران تیار کی تھیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا،"صرف مشترکہ کوشش اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہی ہم خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔ ‘‘
اپنا پیغام جاری رکھتے ہوئے انہوں نے لکھا: برادر مسلمان ممالک کے لئے میرا پیغام عید دوستی اور خیر سگالی پر مبنی ہے۔ ہم سب ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ طاقت کی سیاست کا ڈرامہ جو فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا جا رہا ہے، اس سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔
صرف ایک متحدہ محاذ کے قیام کے ذریعے ہی ہماری آواز دنیا کے ایوانوں میں سنی جا سکتی ہے۔ چنانچہ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اسے خواہ کوئی زبان دیں مگر میرے مشورے کی روح یہ ہے. ہر مسلمان کو دیانتداری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہئے۔
یہ ان کے آخری ریکارڈ شدہ الفاظ ثابت ہوئے۔
اگست کے آخری دنوں میں قائداعظم اچانک ہر چیز سے بے نیاز نظر آنے لگے اور ایک روز انہوں نے انہماک سے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا: " فاطمی ، مجھے اب مزید زندہ رہنے سےکوئی دلچسپی نہیں، میں جتنی جلدی چلا جاؤں اتناہی بہتر ہوگا‘‘۔
یہ بدشگونی کے الفاظ تھے۔ میں لرز اٹھی ، جیسے میں نے بجلی کے ننگے تار کو چھولیا ہو مگر میں نے خود کو پرسکون رکھتے ہوئے کہا، آپ جلد ہی اچھے ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر پُر امید ہیں۔
وہ مسکرائے، ایک بے جان سی مسکراہٹ نہیں میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ مجھے کراچی لے چلئے۔ میں وہیں پیدا ہوا تھا۔ میں وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں۔ ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ میں ان کے بستر کے پاس کھڑی رہی۔
ان کی بے ہوشی میں ان کے الفاظ سن سکتی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے’’کشمیر۔۔۔ انہیں فیصلہ کرنے کا حق دیجئے۔ آئین۔۔۔ میں اسے جلد ہی مکمل کروں گا۔ مہاجرین۔۔۔ انہیں ہر ممکن امداد دیجئے‘‘۔ اور پھر ہم کراچی آگئے، کراچی جہاں مزار قائد ہے، جہاں بانئی پاکستان ابدی نیند سورہے ہیں۔