• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واؤڈا کے خلاف توہینِ عدالت کیس نمٹا دیا۔

فیصل واؤڈا کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شاہد بلال بینچ کا حصہ تھے۔

سماعت کے دوران تمام ٹی وی چینلز کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگ لی گئی اور معافی نامہ نشر کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کی غیر مشروط معافی منظور کرتے ہوئے میڈیا چینلز کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کر دی۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ٹی وی چینلز خود احتسابی کا عمل بھی بہتر بنائیں گے، روزانہ کا مکینزم بھی یقینی بنایا جائے گا، پریس کانفرنس میں کی گئی توہین آمیز باتیں بھی دوبارہ نشر نہیں ہونی چاہیے تھیں۔

‏سپریم کورٹ نے الیکٹرانک میڈیا چینلز کو جاری کردہ توہینِ عدالت کے شوکاز نوٹسز واپس لے لیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ آپ نے معافی کن وجوہات پر مانگی ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 28 جون کا عدالتی حکمنامہ پڑھا تو احساس ہوا غلطی ہوئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اس آرڈر سے اتنے متاثر ہوتے تو اس کی تشہیر نہ کرتے؟ میں نے اپنے کیریئر میں یہ پہلا توہینِ عدالت کا کیس اٹھایا، ہم کسی کو جیل نہیں بھیجنا چاہتے مگر احساس ذمے داری تو ہو، ملک کو تباہ کیا جا رہا ہے، باہر سے کسی کی ضرورت نہیں،  فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کی معافی کی تشہیر نہیں کی گئی، پاکستان میں اور کوئی خبر نہیں کہ جنگل نہ کاٹو، پانی ضائع نہ کرو، پارلیمنٹ کو پی ٹی وی کے علاوہ کوئی کور نہیں کرتا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم نے جو معافی مانگی اس کو بھی ہم نشر کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال عام آدمی نہیں تھے، دونوں کی پریس کانفرنس تو آپ نے کور ہی کرنا تھی، دونوں جو بولیں گے اسے آپ کنٹرول نہیں کر سکتے مگر دوبارہ نشر تو نہ کریں۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کی باتیں پانچ بار چلائی گئیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ غیر مشروط معافی صرف توہین کی شدت کو کم کرتی ہے، عدالت طے کر چکی توہینِ عدالت کیس میں نیت نہیں دیکھی جاتی۔

قومی خبریں سے مزید