پاکستان کو قدرت نے وسیع آبی ذخائر عطا کیے ہیں،جنھیں استعمال میں لاکر سستی بجلی پیدا کرسکتے اور لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو قابل کاشت بناسکتے ہیںمگر بہت عرصہ پہلے منگلا اور تربیلا ڈیم بنانے کے بعد اس سمت میں ہم نے کوئی پیش قدمی نہیں کی۔کالا باغ ڈیم سیاست کی نذرکردیاگیا،اگر بنادیاجاتا تو یہ ملک کا بہت بڑااثاثہ ہوتا۔دیامربھاشاڈیم کا ڈول تو ڈالا گیا مگر یہ بھی ناقص منصوبہ بندی کی نذرہوگیا۔2020میں سابقہ حکومت نے جلدبازی میں اس کی تعمیر کاکام شروع کردیا مگرفنانسنگ کے پہلو کو نظرانداز کرنے سے مسائل میں اضافہ ہوا،اور اس کی لاگت کا تخمینہ جو اس وقت 479ارب روپے لگایا گیا تھا اور زمین کی خریداری پر 120ارب روپے خرچ کردیے گئے تھے،بڑھ کر اب 1400ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔منصوبے پر عمل درآمد میں تاخیر اور غیرضروری التوا کی وجہ سے اس کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔پاکستان کے آبی اور غذائی تحفظ کیلئے یہ ایک کلیدی منصوبہ ہے۔ڈیم پر پیش رفت کا جائزہ لینے کیلئے گزشتہ روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں اسے جلد از جلد مکمل کرنے پرزور دیاگیا۔اجلاس میں متعلقہ محکموں کے وفاقی سیکرٹریوں اور اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ایسے وقت میں جب ملک شدیدمعاشی بحران کا شکار ہے اورغیر ملکی قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا ہی چلاجارہاہے،اس منصوبے کی افادیت پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے۔اس کیلئے وسائل مہیا کرنا اتنا آسان نہیں مگر قومی مفاد میں حکومت کو ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔آبپاشی اور بجلی کے علاوہ یہ روزگار کی فراہمی کا بھی بہت بڑاذریعہ بن سکتا ہے۔اس حوالے سے ملک میں 32نئے چھوٹے ڈیم بنانے کا فیصلہ قابل قدر ہے،جن کیلئے اربوں روپے کے فنڈز بھی مختص کردیے گئے ہیں۔یہ ڈیم وفاقی حکومت بنائے گی۔