کوئی بھی متحرک اور معتبر سوسائٹی حکومت کو کرپشن کے ثبوتوں اور سیاسی دشمنوں کے کچلنے کے بہیمانہ اقدام کی نشاندہی سے چیلنج کرتی ہے، اور جمہوریت میں یہی کام اپوزیشن پارٹیوں کے سنگ سنگ میڈیا، اور این جی اوز کیلئے بھی لازم ہیں لیکن میڈیا اور این جی اوز پارٹی نہیں ہوتے! پیچیدہ سیاسی نظام میں عاقبت نااندیش اور غیر سنجیدہ سیاستدان ریاست کیلئے محسوس اور غیر محسوس انداز میں خطرہ ہی رہے ہیں گویا ادراک رکھنے والے سیاستدان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں وہ نظام اور ریاستی کام میں خیر و برکت ہی کے مین ا رے ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ اپنے اصولوں کو مقدم جانتے ہوئے پارٹی بدل لیتے ہیں اور کچھ پارٹی کو محترم سمجھتے ہوئے اپنے اصول بدل لیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ادل بدل والوں میں سے بہتر کون ہے؟ اس سوال کا نہایت ہی سادہ جواب یہ ہے کہ جن کا بدلاؤ انسانی حقوق کی خاطر ہے وہی لیڈر ہیں اور وہی جمہوریت پسند۔ میرے نزدیک وہ ادل بدل ہزار درجہ ان سے بہتر ہیں جو کسی ایک پارٹی میں اپنی سوچ بچار ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ سوچ کھو بیٹھنے والوں سے وہ سیاست دان ہزار درجہ بہتر ہے جو یہ کہے اور کرے کہ میں کسی پارٹی کا سیاسی و انتخابی غلام نہیں بلکہ ایک ڈیمو کریٹ ہوں ! یہاں ایک 66 سالہ امریکی جرنلسٹ کی بات یاد آ گئی، اس نے کہا ’’میڈیا یہاں اپوزیشن پارٹی کی طرح ضرور موجود ہے لیکن وہ مجموعی طور پر امریکی حالات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اور میڈیا یہ بھی نہیں سمجھ پا رہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کیوں امریکی صدر ہے!‘‘ یہ بات تو اس وقت کی ہے جب ٹرمپ صدر تھا۔ لیکن اس بات میں ایک پیغام یہ بھی واضح ہے کہ میڈیا کو حکومتی اور اپوزیشن لیول کی سیاست کا فہم ہونا چاہئے، اور کسی بھی تبصرہ اور خبر سے قبل اس کو حقیقت اور آفٹر شاکس سے بھی آشنا ہونا چاہئے۔ ٹرمپ دور میں جس قدر اندھا دھند استعمال پوسٹ ٹرُتھ اور گیس لائٹنگ کا ہوا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی، اور ایسا ہی گیس لائٹنگ اور پوسٹ ٹرُتھ عمران خان کی سیاست میں موجود ہے جس کا ادراک خال خال ہی ملتا ہے! جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے اسے پانچ چھ دن قبل دوسرے صدارتی مباحثہ (کملا ہیرس سے پہلے) میں ڈیموکریٹ کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے انتخابی ساکھ، فارن پالیسی اور ابارشن رائٹس کے حوالے سے آڑے ہاتھوں لیا لیکن ٹرمپ بدستور اس مخالفت پر ٹِکا رہا کہ خارجی عناصر کو امریکہ میں قدم جمانے سے روکنا چاہئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی ہائبرڈائزیشن ہی امریکی سائنس، ذہانت اور پراثر ورائٹی کو تقویت بخش رہی ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا تاہم ٹرمپ سمیت وہ لوگ جو گن شکن امریکی پالیسی کے حامی ہیں یہ عہد حاضر میں امریکہ کیلئے سود مند نہیں ہیں کیونکہ بظاہر کوئی جنگی صورت حال ایسی نہیں، اور امن ہی پیداواری روایات اور عمل کو گلوبل ولیج کی شان بنا سکتا ہے، فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے بھی اکثریتی امریکی گَن کے بجائے مکالمہ سے حالت پر قابو پانے کے خواہاں ہیں! بات اسلام آباد سے امریکہ نا دانستہ نکل گئی لیکن راقم ایک ہفتہ شہر اقتدار میں قیام کے بعد واپس پاکستان کے دل میں آکر اسی بات اور حالت کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے کہ اسلام آباد حزبِ اختلاف کا ہے یا حزبِ اقتدار کا ؟ بہرحال یہ طے ہے کہ جب تک کسی بھی ریاست کے جمہوری کلچر میں حزبِ اختلاف بھی ذمہ دار، مضبوط اور مربوط نہ ہو تب تک معاشی و معاشرتی ترقی کے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی۔ اس سے قبل بھی میرے حصے کا صریر خامہ چیخ چکا کہ ان دنوں اسلام آباد کی جمہوریت، حکومت اور اپوزیشن پر وہ آسیب کے سائے ہیں جیسے شگوفوں اور کلیوں کے موسم میں بھی زرد پتوں کا راج ہو۔ بے رنگ حکومت، بے بو اپوزیشن اور بے ذائقہ میڈیا ہو جیسے۔ پچھلے دنوں سنگجانی کے جلسہ کی بدولت ریڈ زون کی رہائش چھوڑ کر مظفرآباد اس لئے چلا گیا کہ کنٹینروں کی رکاوٹیں دیکھ کر اسلام آباد کا چاند سا حسن گرہن زدہ لگنے لگا۔ بڑھکیں ہیں، دعوے اور ایک دوسرے کو خبردار کرنے کے غضب ناک شور کہ دل دہل جائے، جہاں عام شہری کا حسین ایکوسسٹم اور دلفریب شہر میں دل دہل جائے وہاں پیارا میڈیا ، دلنشیں حکومت اور دلربا اپوزیشن کیسی ہو گی؟ ایک طرف پبلک آرڈر ایکٹ 2024اور پر امن احتجاج متعارف ہولیکن پارلیمنٹ سے قانون سازوں کی گرفتاریاں بھی ہوں پھر آن لائن پابندیوں کے سبب ڈیجیٹل حقوق بھی ماتم کناں ہوں، ایسے میں حکومت کے خلاف مہم چلانے والے دانت تیز نہ کئے بیٹھے ہوں تو کیا دانت نکلوائے بیٹھے اور زبان گُنگ کئے ہوں؟ مانا کہ ماضی میں عمران حکومت نے بھی ایسے ہی’’چن چڑھائے‘‘ تھے جو بھول گئے، انہی کے وزیر اطلاعات و نشریات کہتے تھے ریاست کے آگے کوئی نہیں ٹِک سکتا، موصوف خود کہتے رہے سپہ سالار قوم کا باپ ہوتا ہے۔ یہ بھی فرمان جاری رکھا کہ ایجنسی اگر وزیراعظم کا فون سن لیتی ہے تو کیا ڈر؟ فریال تالپور سے مریم نواز شریف تک کے ساتھ کئے گئے سلوک اتنی جلدی بھول تو نہیں سکتے... جمہوریت اور شائستگی کے نزدیک یہ عمرانی دور میں بھی غلط تھا اور آج بھی غلط ہے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دینے اور بےنظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہنے والے آنکھوں اور سر پر سرہانے رکھ کر اپنی خواب گاہوں میں روئے تھے، اور آج دن کے اجالوں میں غلطی مانتے ہیں۔ کیا آج کی حکومت ، اپوزیشن اور میڈیا اسلام آباد کی رعنائیوں میں یہ بھولے تو نہیں ہوںگے۔ اور کتنے روز شہر اقتدار کے سر پر کنٹینرز کا بوجھ رکھنا ہے؟ اپوزیشن بھی تو سوچے کہ دھرنا ایام کے سبب چائنہ کے ساتھ ہماری معاشی بانڈنگ اور بائنڈنگ کا کتنا نقصان ہوا تو جو عمرانی دور میں بھی سہنا پڑا... شہر اقتدار سے پاکستان کے قلب میں واپس پہنچا تو یہ خیال ہی نہیں جاتا کہ اسلام آباد حزبِ اختلاف سے بھی اتنی ہی داخلی اور خارجی ذمہ داری کی فریاد کرتا ہے جتنی حزبِ اقتدار سے، اور وطن یہ کہتا ہے اپنی اپنی پارٹی کی بانسری ضرور بجائیں لیکن سوچ اور سُر پر قدغن نہ لگائیں! اور، ہائبرڈ حکومت کبھی ہائبرڈائزیشن کی فضیلت بھی سمجھے!