جارج برنارڈ شا کو شیکسپیئر کے بعد انگریزی کا دوسرا بڑا ڈرامہ نگار اور ادیب کہا جاتا ہے۔ جارج برنارڈ شا کو 1925ء میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ وہ جنگ کا مخالف تھا اور برطانوی حکومت کی پالیسیوں کا ناقد بھی تھا۔ جارج برنارڈ شا نے اپنی زندگی میں ایک ایسی پیشِین گوئی کی جس پر مسلمان بہت فخر کرسکتے ہیں لیکن فخر کیساتھ ساتھ یہ پیشِین گوئی سب سے زیادہ غور و فکر کا تقاضا بھی مسلمانوں سے کرتی ہے۔ جارج برنارڈشا نے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے بارے میں کہا تھا کہ میں نے انکی زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور میرے خیال میں وہ اینٹی کرائسٹ (مسیحیت کے مخالف) نہیں تھے بلکہ محمدﷺ انسانیت کے نجات دہندہ تھے۔ جارج برنارڈشا نے یہ پیشِین گوئی کی کہ آئندہ سو برسوں میں اگر کوئی مذہب برطانیہ بلکہ پورے یورپ پر حکومت کر سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہوسکتا ہے۔ برنارڈشا ابتدا میں اسلام کا ناقد تھا۔ 1935ء میں کینیا کے شہر ممباسا میں اسکی ملاقات ہندوستان کے معروف عالم دین مولانا عبدالعلیم صدیقی سے ہوئی۔ اس ملاقات میں صلیبی جنگوں پر گفتگو کے دوران برنارڈ شا نے کہا کہ کیا درست نہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا؟ مولانا عبدالعلیم صدیقی نے بتایا کہ قرآن مجید میں واضح حکم ہے کہ دین میں جبر نہیں۔ نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات وہی ہیں جو حضرت ابراہیمؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک سبھی انبیاء کو بتائی اور سکھلائی گئیں لیکن جب ان تعلیمات کو کچھ پیروکاروں نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے مسخ کرنا شروع کردیا تو پھر آخری نبی ﷺکے ذریعےقرآن پاک کی سورہ شوریٰ میں کہا گیا کہ ’’اللّٰہ نے تمہارے لئے دین کا وہی راستہ مقرر کیا ہے جسے اختیار کرنے کا حکم ہم نے نوحؑ کو دیا تھا اور جس کی اے نبیؐ ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جسکا ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو حکم تھا ‘‘۔ قرآن مجید کے یہ حوالے سنکر جارج برنارڈ شا نے مولانا عبدالعلیم صدیقی کا شکریہ ادا کیا اور پھر لندن واپس آ کربرنارڈشا نے قرآن کیساتھ ساتھ نبی کریم ﷺکی زندگی کا مطالعہ کیا۔ اس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر حضرت محمد ﷺ کو محسن ِانسانیت اور اسلام کو یورپ کا مستقبل قرار دیا لیکن مسلمانوں کے متعلق اسکی رائے اتنی اچھی نہ تھی۔ وہ مولانا عبدالعلیم صدیقی جیسے علماء کی تعظیم کرتا تھا لیکن اکثر مسلمانوں کے کردار کو اسلامی تعلیمات کے برعکس پاتا تھا اسلامی تعلیمات اور اکثر مسلمانوں کے کردار میں پائے جانیوالے تضاد کے باوجود جارج برنارڈشا نے اسلام کو یورپ کا مستقبل کیوں قرار دیا؟
جارج برنارڈ شا نے جب نبی کریمﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا تو اسے ریاست مدینہ کا تصور اس فلاحی مملکت کے تصور کے بہت قریب نظر آیا جو ہر امن پسند ادیب اور دانشور کا خواب ہوتا ہے۔ میں دوسروں کی کیا بات کروں؟ جب اپنے آپ پر نظر ڈالتا ہوں تو خود کو بڑا خوش قسمت پاتا ہوں کہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا لیکن جب اپنے کردار و عمل کا جائزہ لیتا ہوں تو کمزوریاں ہی کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ میرےپیارے نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے۔ یہ حدیث مجھ جیسے مسلمانوں کو اچھی تو بہت لگتی ہے لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت رکھتے ہیں؟ جابر سلطان تو دور کی بات ہم اپنے باس کے سامنے سچ نہیں بولتے بلکہ چھوٹےچھوٹے مفاد کیلئے جھوٹ بولتے رہتے ہیں جبکہ قرآن میں جھوٹ کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ تو جیسے عوام ویسے حکمران۔عوام ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں اور حکمران عوام سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ہماری عدالتوں کے جج اپنے فیصلوں میں قرآنی آیات کے حوالے دیتے ہیں لیکن کردار یہ ہے کہ اکثر ججوں کی عدالت میں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی فیصلے کا اندازہ لگا لیا جاتا ہے۔ جس اسلام کا مطالعہ جارج برنارڈ شا نے کیا اسکی بنیاد امن انصاف اور جمہوریت ہے لیکن جس اسلام کو ہم ایک دوسرے پر نافذ کرنے کی کوشش میں ہیں اس میں ہمیں اپنے اردگرد چھوٹےچھوٹے ڈکٹیٹروں کی بہتات نظر آتی ہے۔ میں ایسے طاقتور لوگوں کو اپنے لئے اللّٰہ کا عذاب سمجھتا ہوں جو ہر تقریر میں قرآنی آیات کے حوالے دیتے ہیں لیکن انکا کردار ان آیات کے مفہوم سے بہت دور نظر آتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کی مثال لے لیں۔ اسے مجلس شوریٰ کہا جاتا ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے تمام معاملات صلاح مشورے سے طے کرنے کا حکم دیا۔ اس پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ طیبہ تحریر ہے۔ اس پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوتا ہے کیا وہ اسلام کے عین مطابق ہے؟ سب جانتے ہیں کہ اس پارلیمنٹ میں ملک و قوم کے مفاد میں کون سا قانون بنتا ہے اور کسی فرد یا گروہ کے مفاد کیلئے کیسے قانون بنایا جاتا ہے؟ سب کو پتہ ہے کہ قانون سازی کیلئے یا اہم عہدوں کے انتخاب کیلئے اس پارلیمنٹ کے ارکان کے ووٹ کیسے خریدے جاتے ہیں اور جو اپنا ووٹ نہ بیچے اسے اغوا کرکے کون کون، کیسے کیسے تشدد کا نشانہ بناتا ہے؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ اپنے ذاتی اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے اراکین پارلیمنٹ کے ووٹوں کی خریدو فروخت کرنیوالے حکمران ہر سال 12ربیع الاول کو سیرت کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہیں اور ہم جیسے گناہ گاروں سے یہ توقع کرتے ہیں ہم انہیں اسلام کا سپاہی قرار دیکر انکی منافقانہ سیاست کی حمایت کریں۔ ہم سب بھول جاتے ہیں کہ ہم نے اللّٰہ تعالیٰ کو جان بھی دینی ہے اور پھر ہمارا حساب کتاب بھی ہونا ہے۔ کیا ہمارے کردار کو دیکھ کر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کریگا؟ بالکل نہیں! یورپ میں اسلام اسلئے پھیل رہا ہے کہ وہاں علم و فکر پر پہرے نہیں بٹھائے جاتے۔ آزادی اظہار پر ویسی قدغنیں نہیں لگائی جاتیں جیسی پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی، انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے ممالک میں لگائی جاتی ہیں۔ جہاں جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنے کا کام پارلیمنٹ سے لیا جاتا ہے۔ یورپ میں اسلام اسلئے پھیل رہا ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا تھا کہ ’’خبردار! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو عربی پر۔ اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ کالے کو گورے پر فضیلت حاصل ہے، فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔‘‘ یورپ میں اسلام اسلئے پھیل رہا ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ کی تعلیمات میں علم سے محبت کی گئی، مساوات کا درس دیا گیا اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا یہاں تک کہ جانوروں اور نباتات کو بھی تحفظ دیا گیا۔ آج یورپ میں مسلمانوں کو جو حقوق حاصل ہیں کیا ہم نے وہ حقوق غیر مسلموں کو دیئے ہیں؟ ریاست مدینہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کیلئے انصاف برابر تھا۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ اسلام تو تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن ہم جیسے پیدائشی مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں، فلسطین میں جو ظلم ہوا اس پر بھی یورپ میں زیادہ بڑے جلوس نکالے گئے جبکہ پیدائشی مسلمانوں کے ابن الوقت حکمران گول مول تقریروں سے کام چلاتے رہے۔ 12ربیع الاول خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کا یوم ولادت ہے اس دن تقاریر بھی کریں، بڑی بڑی مجالس کا انعقاد بھی کریں لیکن پیارے نبیﷺ کی پیروی میں حقوق العباد کا بھی خیال کریں۔ وہ حقوق العباد جن کےتحفظ نے جارج برنارڈ شا کو ہمارے نبی ﷺ کا گرویدہ بنایا۔