• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

3 شہریوں کو حبسِ بے جا میں رکھنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ پولیس پر برہم

اسلام آباد ہائی کورٹ ـــ فائل فوٹو
اسلام آباد ہائی کورٹ ـــ فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو پولیس کی جانب سے 3 شہریوں کو حبسِ بےجا میں رکھنے کے معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ 24 ستمبر کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے 3 شہریوں کو حبسِ بے جا میں رکھنے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے پولیس افسران کے نظامِ احتساب پر سوالات اٹھا دیے۔

اُنہوں نے  آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ اسلام آباد پولیس کے سب سے بڑے آفس ہولڈر ہیں، افسران کی وجہ سے آپ کو بار بار عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ڈی آئی جی اسلام آباد کو طلب کیا تھا لیکن بتایا گیا کہ ان سے رابطہ نہیں ہو رہا، ڈی آئی جی موجود نہیں تھا تو کوئی دوسرا عدالت میں پیش ہو جاتا، جب آرڈر کیا کہ افسر پیش ہوں تو اس کا مطلب ہے پیش ہوں۔

جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ایک ڈی آئی جی موجود تھے جنہیں عدالت میں پیش ہونا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کے ادارے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی انتہا ہے، یہ کیس اس کی کلاسک مثال ہے، درخواست گزار کے وکیل کے مطابق 3 لوگوں کو 17 ستمبر کو ایس پی آفس سے اٹھایا گیا جبکہ پولیس کہتی ہے کہ 19 ستمبر کو مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا اور اُسی دن ہی ریمانڈ لے لیا، کیا یہ اتفاق ہے کہ بازیابی کی درخواست آنے کے بعد مقدمہ بھی ہو گیا اور ریمانڈ بھی؟ پولیس نے خود کو بچانے کے لیے کاغذی کارروائی پوری کی، اتفاقات پر یقین نہیں رکھتا، آئل ٹینکرز مسنگ ہونے کا کیس ہے اور ملزمان کا براہِ راست تعلق بھی نہیں، یہ کیس اب میرے سامنے آ گیا ہے تو میں اس پر آرڈر کروں گا۔

آئی جی اسلام آباد نے یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ میں اس کیس میں ملوث پولیس افسروں کو چھوڑوں گا نہیں، اس معاملے کو خود دیکھوں گا اور تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دوں گا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عوامی اعتماد نہیں رہے گا تو آپ کہاں جائیں گے اور ہم کہاں جائیں گے؟ میں آپ کو دکھا سکتا ہوں کہ آپ کے افسروں کے خلاف انتظامی سائیڈ پر کتنی شکایات آتی ہیں، میرے پاس سو موٹو اختیار نہیں، ان درخواستوں پر کچھ نہیں کر سکتا، پولیس زمینوں پر قبضے اور خرید و فروخت میں ملوث ہے، ایک ایس پی ڈھائی ہزار کنال زمین لیتا ہے اور سب اس کو بچانےمیں لگ جاتے ہیں، یہ سارا کچھ کہاں سے آ رہا ہے؟ یہ چیزیں کیوں ہو رہی ہیں؟ کیا ہم قابلِ احتساب نہیں؟ میں تو مجسٹریٹ کے خلاف بھی لکھوں گا کہ کیا مواد موجود تھا کہ اس نے ریمانڈ دے دیا؟ ایف آئی آر میں تو پولیس اہلکاروں کے بھی ملوث ہونے کا لکھا گیا ہے، پولیس کے کون سے بندے کی شناخت ہوئی ہے؟

آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ ایس ایس پی کے مطابق ابھی تک کسی کی شناخت نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے یہ سن کر کہا کہ مجسٹریٹ روزانہ بغیر سوچے سمجھے ریمانڈ دے دیتے ہیں، محض الزام لگ جانے سے کچھ نہیں ہوتا، شواہد موجود ہونے چاہئیں،آپ کا ایس پی جو خود کو ایم اے انگلش کہتا ہے اور  یہ کر رہا ہے، میں اس معاملے میں ملوث پولیس افسران کو نہیں چھوڑوں گا، یہ عدلیہ اور پولیس سب کی بدنامی ہے۔

قومی خبریں سے مزید