• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسجد.....اہلِ ایمان کےاتحاد و یگانگت، اخوت و اجتماعیت کی عظیم مظہر (دوسری اورآخری قسط )

مختصر یہ کہ ’’مسجد‘‘ اسلامی نظامِ حیات میں ایک مرکز، نیوکلیس (Nucleus) کی حیثیت رکھتی ہے۔ یوں سمجھیں، یہ ایک ایسا ادارہ (Institution) ہے، جو مسلمانوں کو رنگ، نسل، قبیلہ، حسب نسب اور ذات پات کے امتیازات بالائے طاق رکھ کر، اخوت و اجتماعیت، وحدت و یگانگت، بھائی چارے اور باہمی اتحاد و اتفاق کی ایک خُوب صُورت لڑی میں پروتا ہے۔ ہر قسم کی مخاصمت سے بچاتا اور فقط ایمان کی بنیاد پر ایک ہی سطح پر لے آتا ہے۔ بلاشبہ، مسجد ایک ایسی جائے عبادت اور درس گاہ ہے، جہاں انسانی مساوات کا عملاً درس دیا جاتا ہے۔ 

وحدتِ اولادِ آدم ؑ کے نظریے کی تعلیم، رنگ، نسل، قوم، زبان اور اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز کے بغیر ہر ایک کو ملتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ’’مسجد‘‘ مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے ہر ہرپہلو پر اثر انداز ہوتی ہے۔اسی سبب اسلام نے نہ صرف مساجد کے قیام بلکہ انھیں آباد رکھنے کی تاکید و تعلیم دی ہے۔ دینِ اسلام کے عمیق مطالعے کے بعدیہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اخوت و اجتماعیت کو جِلا بخشنے میں ’’مساجد‘‘ سے زیادہ مرکزی کردار کسی ادارے کا نہیں اور حقیقتاً اس خوب صورت اجتماعی نظام کے بعد کسی اور نظام کی ضر ورت بھی نہیں تھی۔ 

جیسا کہ دیارِ عرب کے معروف محقّق اور عالمِ اسلام کے مشہور مذہبی اسکالر، علامہ یوسف قرضاوی اخوت و مساوات، وحدت و یگانگت اور اتّحاد و اتفاق میں مساجد کے کردار کے متعلق لکھتے ہیں:’’جہاں تک مسلمانوں کے باہمی بھائی چارے کا تعلق ہے، تو یہ جان لینا کافی ہے کہ مسجد ہر روز پانچ مرتبہ اہلِ محلہ کو اپنے اندر سمولیتی ہے۔ جہاں اہلِ ایمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

اس اتفاق و اتحاد سے بڑھ کر کون سا اتفاق و اتحاد بلیغ تر اور عمیق تر ہوگا، جب کہ وہ ایک ہی امام کے پیچھے باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے ایک ہی ربّ (اللہ) کے حضور مناجات کر رہے ہوں، ایک ہی کتاب (قرآنِ کریم) کی تلاوت کر رہے ہوں، ایک ہی قبلہ (کعبہ) کی جانب منہ کیے ہوئے ہوں اور قیام، قعود، رکوع اور سجود کی صُورت میں ایک ہی طرح کے اعمال ادا کر رہے ہوں۔ وحدت، جو جسم کی کھالوں تک محدود نہیں رہتی، بلکہ دلوں تک نفوذ کرتی ہے، وہ فکر و نظر کی وحدت ہے، وہ راہِ منزل کی وحدت ہے، وہ قول و فعل کی وحدت ہے، خبر و اظہار کی وحدت ہے۔ وہ وحدت ہے، جس میں ہم آیتِ کریمہ اِنَّمَا المُؤمِنُونَ اِخوَۃ’‘ کی رُوح محسوس کرتے ہیں۔‘‘

مدینۂ منورہ میں مسجدِ نبویؐ سے بڑھ شان دار، خُوب صُورت، حیران کُن مثال کون سی ہوگی کہ جس نے عرب سے باہر کی نوع بہ نوع نسلوں اپنے اندر کو سمو لیا۔ صہیبؓ روم سے، سلمانؓ فارس سے اور بلالؓ حبش سے آئے تھے اور اسی طرح سے وہ عرب کے مختلف قبائل مثلاً قحطانین میں سے انصار اور عدنانین میں سے مہاجرین کو اپنی گود میں لیے ہوئے تھی۔ اوس و خزرج کی طرح چھوٹی چھوٹی قبائلی شاخیں تھیں، جنہیں زمانۂ جاہلیت میں بغض و عداوت نے مدتوں سے متفرق و منتشر رکھا تھا۔ ’’مسجد‘‘ نے انہیں اپنے کشادہ صحن میں جمع کرلیا۔ 

انہیں اپنے محبّت بَھرے سینے سے لگایا اور وہ اللہ کے فضل سے اس طور سے بھائی بھائی بن گئے کہ ان میں سے کوئی بھوکا سو رہتا، تاکہ اس کا بھائی سیر ہوکر کھالے۔ اور.....قرآنِ کریم میں اس حقیقت کی ترجمانی کتنے خُوب صُورت انداز سے کی گئی ہے:’’وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔‘‘ (سورۃالحشر/9)۔وہ کون سی مساوات ہے، جو اس مساوات سے واضح تر ہو، جسے ہم مسجد میں باہم جُڑی ہوئی صفوں کی صُورت دیکھتے ہیں۔ 

حاکم کے ساتھ، اُس کا غلام اُس کے پہلو میں کھڑا ہوا، غنی، مسکین کے ساتھ ملا ہوا، سردار، ملازم سے جُڑا ہوا اور صاحبِ علم فلسفی کی ایک جانب مزدور اور دوسری جانب کسان کھڑا نظر آتا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بے شک، مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (سورۃ الحجرات/10)۔ اوررسولِ اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:’’اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ مزید ارشاد فرمایا:’’اے ہمارے اور ہر ایک کی پرورش کرنے والے رب، میں گواہی دیتا ہوں کہ انسان سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ 

پھر ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقعے پر آپﷺ نے اپنے تاریخ ساز خطبے میں ارشاد فرمایا:’’لوگو! جان لو کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ ہاں، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے سبب سے۔‘‘اس اعلان نے حسب نسب، رنگ ونسل، آقا و غلام، امیر و غریب، ادنیٰ و اعلیٰ کے سارے امتیازات اور تفریقات ختم کرکے انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا۔ یہ ہے، وہ اسلامی اخوّت و مساوات اور اتحاد و یگانگت کی پاکیزہ تعلیم اور اسی تعلیم کا عملی سبق مسجد میں ہر روز پانچ دفعہ دُہرایا جاتا ہے۔

بھارت کی مشہور سماجی رہنما، سروجنی نائیڈو ایک جگہ لکھتی ہیں:’’اسلام وہ پہلا مذہب ہے، جس نے جمہوریت کا درس دیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ جب مینارۂ مسجد سے اذان کی صدا گونجتی ہے اور پرستارانِ حق مسجد میں جمع ہوتے ہیں، تو دن میں پانچ بار جمہوریتِ اسلام اپنی عملی صُورت میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ شاہ و گدا، دوش بدوش سر بسجود ہوتے اور پُکار پُکار کر ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہیں، مَیں اسلام کی اس ناقابلِ تقسیم وحدت و یگانگت سے بارہا متاثر ہوئی، وہ وحدت و یگانگت جو واقعی انسانوں کو بھائی بھائی بنا دیتی ہے، یعنی لندن میں دیکھو، وہاں مصری بھی ہیں، حبشی بھی، ہندی بھی ہیں اور تُرک بھی، کسی کا وطن مصر ہوا، تو کسی کا ہند، وہ سب ایک دوسرے کو اپنا بھائی تصوّر کرتے ہیں۔‘‘ اور، ہمارا یہ مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ کوئی معاشرہ بھی باہمی تعاون کے بغیر فروغ حاصل نہیں کرسکتا۔ ابتدائے زمانہ سے آج تک تمام مفکرین نے معاشرے کی بہبود کے لیے اتحاد و یگانگت اور باہمی تعاون کو بہت اہمیت دی اور ہر ’’مسجد‘‘ مسلمانوں کو باہمی تعاون اور اشتراکِ عمل ہی کا سبق دیتی ہے۔ 

مساجد میں ہر روز آنے والے نمازی ایک دوسرے کے واقف کار اور شناسا ہوجاتے ہیں۔ اُنہیں ایک دوسرے کی ضروریات اور احتیاجات کا بھی علم ہوجاتا ہے۔ پھر کبھی کبھی ان ضروریات کی تکمیل کے لیے اپیلز بھی کی جاتی ہے اور باہمی تعاون سے ایک دوسرے کی ضروریات پوری بھی کی جاتی ہیں۔ باجماعت نماز پڑھنے کی ایک بڑی غرض یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا باہمی ربط بڑھے اور باہمی تعاون سے ایک دوسرے کی ضروریات پوری بھی کرسکیں۔ 

فرد اور معاشرے کا رشتہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک عمارت کا اینٹوں کے ساتھ، جب اینٹیں قاعدے اور ترتیب سے نقشے کے مطابق رکھ دی جاتی ہیں، تو عمارت بن جاتی ہے۔ ہر ایک اینٹ، دوسری اینٹ کے لیے سہارے کا موجب بنتی ہے، تو یہی حال پورے معاشرے کا ہے۔ اگر معاشرے کے افراد اتحاد کی لڑی میں منسلک ہوں، تو یقین کریں، اُس معاشرے کی اساس مستحکم اور غیر متزلزل ہے۔ اسی لیے اسلام نے اتّحاد کو برقرار رکھنے کے لیے بارہا تفرقے سے بچنے کا حکم دیا۔

ارشادِ ربانی ہے: ’’اور سب کے سب اللہ کی رسّی کو پکڑے رکھو اور تفرقہ نہ کرو۔‘‘(آلِ عمران/103)۔ اسی طرح رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جماعت کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رہو اور تفرقے سے بچو۔‘‘ نیز، فرمایا: ’’جو کوئی امام کی اطاعت سے کنارہ کش ہوا اور جماعت سے علیٰحدگی اختیار کی اور اسی حالت میں مرگیا، تو اُس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘ (مسلم بن حجاج القشیری، امام/الجامع الصحیح2/127)۔ 

قصّہ مختصر، اسلامی نظامِ حیات کی اسی تعلیم کی عملی درس گاہ مسجد ہے کہ جب نمازی مقررہ وقت پر فرض نمازوں کی ادائی کے لیے ایک امام کے پیچھے قبلہ رُو ہوکر با جماعت نماز ادا کرتے ہیں، تو وہ گویا عملی صُورت میں اتّحاد و اتفاق کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ رسولِ کریم ﷺ نے اتّحاد و اتفاق کی اس عملی صُورت کے اظہار کے وقت، صفوں کی بے ترتیبی تک کو برداشت نہیں کیا، کیوں کہ صفوں کی بے ترتیبی و نا ہم واری انتشار و افتراق پر دلالت کرتی ہے۔رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:’’اپنی صفوں میں برابر کھڑے ہوجائو۔ اختلاف نہ ہو، اس کا اثر تمہارے دلوں پر پڑے گا۔‘‘(مسلم بن حجاج القشیری، امام/الجامع الصحیح1/181)۔

نیز، ’’مسجد‘‘ وحدت و یگانگت اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ ساتھ اخلاق کو درست کرنے کے لیے بھی ایک بہترین مکتب ہے۔ انسان اُسی وقت گناہوں کی آلودگیوں سے بچتا ہے، جب اُس کے دل میں اللہ کی معرفت ہوتی ہے اور معرفت جتنی زیادہ ہوگی، انسان برائیوں سے اُتنا ہی دُور رہے گا۔ واضح رہے، اللہ کی یہ معرفت نماز سے پیدا ہوتی ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نماز کو برائیوں سے بچنے کی کنجی قرار دیا ہے۔ فرمایا گیا:’نماز بے حیائی اور بُرائی سے روکتی ہے۔‘‘(سورۃالعنکبوت/45)۔ 

پھر’’مسجد‘‘ انسان کو فرض شناسی اور احساسِ ذمّے داری بھی کا سبق دیتی ہے۔ یعنی جب ایک مؤذن مسجد کے مینار پر کھڑا ہوکر ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند کرتا ہے، تو ہر مسلمان پر فرض عائد ہوجاتا ہے کہ تمام دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر اللہ کے دربار میں حاضر ہوجائے، کیوں کہ اس حاضری ہی سے فرض شناسی اور احساسِ ذمّے داری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔