• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسجد ... اہلِ ایمان کے اتحاد و یگانگت، اخوت و اجتماعیت کی عظیم مظہر (پہلی قسط)

اسلام کے نظامِ عبادت میں ’’مسجد‘‘ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ مکّی زندگی میں مسلمان مسجدِ حرام سے وابستگی رکھتے تھے، لیکن کفار کی شدّت کی وجہ سے مسجد میں نماز ادا نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے اُنھوں نے نماز کے لیے مختلف جگہیں مقرر کر رکھی تھیں۔ نماز کو اسلام میں چوں کہ بنیادی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا اس کے لیے ’’مسجد‘‘کا ہونا ضروری امَر ہے۔ پھر یہ کہ اسلام کے نظامِ عبادت، مسلمانوں کی وحدت و یگانگت اور اجتماعی نظم و ضبط کے لیے بھی ایک مرکز، مسجد کا ہونا لازم ٹھہرا کہ جو اہلِ ایمان کی اخوّت و اجتماعیت، اخلاقِ حسنہ اور اتحادو یگانگت کا مظہر ہو۔ 

یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ جب مدینہ منوّرہ تشریف لائے، تو آپؐ نے سب سے پہلا کام تعمیرِ مسجد ہی کا کیا، جب کہ اس دوران نماز کی ادائی کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں۔٭… آپؐ ابو ایوب انصاریؓ کے گھر میں نماز ادا فرماتے تھے۔ ٭… آپؐ ابو امامہؓ کے گھر نماز پڑھتے، جہاں اُنہوں نے چھوٹی سی مسجد بنا رکھی تھی۔٭… مسجدِ نبویؐ کی تعمیر سے پہلے آپ ؐ مسجدِ قبا میں نماز پڑھتے اور غالباً یہ عہدِ اسلامی کی پہلی مسجد ہے۔ مفسّرین نے اسی مسجد کو اس آیت کا مصداق ٹھہرایا ہے کہ ارشاد ربّانی ہے:’’وہ مسجد، جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔ اس امَر کی یقیناً زیادہ مستحق ہے کہ آپؐ اس میں قیامِ صلاۃ کریں۔‘‘ (سورۃالتوبہ/108)۔ 

اس کے بعد مسجدِ نبویؐ کے لیے جگہ خریدی گئی اور آپؐ اپنے صحابہ سمیت اس کی تعمیر میں مصروف ہوگئے اور حضور اکرمﷺ کے اس طرزِ عمل کے نتیجے میں اُمّتِ مسلمہ میں مسجد کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی۔ پھر مسلمان جہاں بھی گئے، اُنہوں نے سب سے پہلے مساجد تعمیر کیں۔ اسلامی معاشرے میں اگر ’’مسجد‘‘ اہلِ ایمان کی وحدت و یگانگت کا مظہر اور ایک تمدّنی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے، تو اِس کی اِس اہمیت کا بڑا سبب بیت اللہ ہے، جسے قرآنِ پاک نے اوّلین عبادت گاہ قرار دیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’یقیناً وہ گھر، جو سب سے پہلے لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا، وہ مکّہ مکرمہ میں ہے، جس کی حالت یہ ہے کہ وہ برکت والا ہے، اور جہاں کے لوگوں کا رہنما ہے۔‘‘(سورۂ آل عمران/96)۔

ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی اپنی کتاب ’’فقہ السیرۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ ہجرتِ مدینہ کے بعد مدینۂ منورہ تشریف لائے اور یہاں سکونت اختیار فرمائی، تو آغاز ہی میں آپؐ نے یہاں ایک مضبوط اسلامی معاشرے کے قیام کی طرف توجّہ دی کہ جس میں وہاں کے مسلمانوں (مہاجرینؓ و انصارؓ) پر مشتمل ایک مضبوط اور مستحکم اسلامی معاشرہ قائم ہو، چناں چہ اس سلسلے میں آپ ؐ نے جو پہلا قدم اُٹھایا، وہ مسجدِ نبویؐ کی تعمیر تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی معاشرے کے قیام کی پہلی بنیاد مسجد ہے،کیوں کہ اسلامی معاشرے میں عقیدے، عمل اور آداب کی جو مضبوطی اور رسوخ پیدا ہوتا ہے، اُس کا منبع و مرکز مسجد ہے اور یہ سب چیزیں مسجد کی رُوح اور اس کے نظام سے پُھوٹتی ہیں۔ 

بے شک، اسلامی نظام اور آداب میں مسلمانوں میں اخوّت و اجتماعیت اور باہمی بھائی چارے کا رشتہ نہایت اہمیت رکھتا ہے، دینِ اسلام جملہ مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیتا ہے اور یہ باہمی اسلامی بھائی چارے کا رشتہ، مسجد کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ مسجد ایک ایسی بابرکت جگہ ہے، جہاں مسلمان دن میں متعدد مرتبہ جمع ہوتے ہیں، اس طرح مسلمانوں کے درمیان سے وہ جملہ تفریقیں جو مال و دولت، جاہ و منصب اور ذات پات کے اعتبار سے ہوتی ہیں، سب کی سب ختم ہوجاتی ہیں اور جب یہ اونچ نیچ کا فرق ختم ہوتا ہے، تو پھر باہمی محبت و الفت، وحدت و یگانگت اور بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘ 

اسلام کے نظام اور اس کے آداب کا تقاضا ہے کہ جملہ مسلمان مضبوط اور راسخ وحدت کے سانچے میں ڈھل جائیں اور اللہ کی رسّی یعنی اس کے حکم اور شریعت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، لیکن اگر اسلامی معاشرے کے مختلف اطراف میں ایسی مساجد قائم نہیں ہوں گی، جہاں مجتمع ہوکر مسلمان اللہ تعالیٰ کے احکام اورشریعت کو سمجھ سکیں اور علم و معرفت کے ساتھ ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہیں، تو گویا ان کی وحدت پارہ پارہ ہوکر بکھر جائے گی۔ نتیجتاً بہت جلد خواہشات اور شہوات اُن میں تفرقہ ڈال دیں گی۔سو، مسلم معاشرے اور جدید اسلامی حکومت میں ان ہی تصوّرات کے فروغ کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے قیام کے آغاز ہی میں تمام امور سے قبل مسجد کی تعمیر فرمائی۔

درحقیقت اسلام نے فرد اور معاشرے کی تعلیم و تربیت، مسلمانوں کے مابین اجتماعیت اور اُن کے آپس کے روابط کے استحکام و مضبوطی کے لیے بہترین نظامِ زندگی دیا ہے اور اسی کا ایک بنیادی ادارہ ’’مسجد‘‘ ہے۔ مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی اہلِ ایمان میں اتّحاد و اتفاق پیدا کرنے اور ان کی اخوت و اجتماعیت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں ’’مساجد‘‘ کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نظامِ وحدت اور یک جہتی کی جو مثال مساجد کے اس دینی نظام میں ملحوظ رکھی گئی ہے، وہ کہیں اور نہیں مل سکتی، توحید کا نظارہ اور اس کی نورانی شعائیں جو یہاں پائی جاتی ہیں، وہ کہیں نظر نہیں آتیں، مسجدوں کے اس قدرتی نظام میں جو مضبوطی اور استحکام ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، کوئی ایسا سوراخ باقی نہیں چھوڑا گیا، جہاں سے متفردانہ زندگی کا چشمہ پُھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو، رحمتِ عالمﷺ نے حکم نافذ فرما دیا کہ کہیں تین یا دو شخص بھی ہوں، تو بھی ان میں سے ایک کو اپنا امام منتخب کرلیا جائے۔ 

ترجمہ:’’تین افراد ہوں، تو بھی اُن میں ایک کو امامت کرنی چاہیے اور حقِ امامت بڑے قاری کو ہے۔‘‘(مسلم بن حجاج القشیری/ الجامع الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ)۔ تین کی قید اتفاقی ہے، مطلب یہ ہے کہ جب ایک سے زیادہ افراد ہوں، تو لوگوں کو چاہیے کہ ایک کو پیشوا منتخب کرلیں اور اُسے منتخب کریں، جو قرآن اور دین کا زیادہ علم رکھتا ہو۔

اورعلامہ سیّد سلیمان ندویؒ مساجد سے وابستہ نماز کے اس کردار کے بارے میں کیا خوب لکھتے ہیں:’’نماز اور اس کے متعلقات کی نسبت غور کرتے وقت ایک خاص اصول کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ وہی اصول درحقیقت اسلام کا اصل راز، بلکہ سرّالاسرار ہے اور نماز کے ایک ایک عمل، ایک ایک جنبش، ایک ایک لفظ، ایک ایک اشارے اور ایک ایک طرز سے اس حقیقت و کیفیت کا تراوش ہونا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک نماز کی کوئی خاص شکل و صورت، آئین و طریق اور سمت و وقت مقرر نہ کیا جاتا، جماعتیں اسے ایک متحدہ نظام میں ادا نہ کرسکتی تھیں۔ 

مطلب اس نظامِ وحدت کا آشکار و ہویدا کرنا، توحید کا سب سے بڑا رمز اور شعار تھا اور کروڑوں دلوں کو جو کروڑوں اجسام میں ہیں، ایک متحد جسم اور واحد قالب ظاہر کرنا، صرف اِسی طرح ممکن ہے کہ ان سے واحد نظام کے ماتحت واحد شکل و صُورت میں، واحد اعمال و افعال کا صدور کرایا جائے، چناں چہ انسان کے تمام جماعتی نظامات کی وحدتِ اسی اصول پر مبنی ہے، قوم کی وحدت، فوج کی وحدت، کسی بزم و انجمن کی وحدت، کسی مملکت و سلطنت کی وحدت، غرض ہر ایک نظامِ وحدت اسی اصول پر قائم ہے اور اسی طرح قائم ہوسکتا ہے۔‘‘ 

بلاشبہ، ’’مسجد‘‘ اہلِ ایمان کے اتحاد و اتفاق، وحدت و یگانگت اور انفرادی و اجتماعی زندگیوں کا ایسا مرکز و محور ہے، جہاں سے اُن کے تمام مذہبی، اخلاقی، اصلاحی، تعلیمی، تمدّنی، ثقافتی، تہذیبی، سیاسی اور اجتماعی امور کی رہنمائی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ مساجد کا یہ کردار قرونِ اولیٰ میں پوری طرح جاری و ساری رہا، چناں چہ اُس دور میں مسلمانوں کے تمام معاملات مساجد ہی میں سرانجام دیے جاتے تھے۔ 

حضوراکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں مسجد ’’دارالخلافہ‘‘ سے لے کر غرباء کی قیام گاہ تک تھی۔ جب تک مسجد کا یہ مقام رہا، اُمّتِ مسلمہ، اُمّتِ واحدہ کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دیتی رہی، لیکن جب یہ رشتہ کم زور ہوا اور اجتماعی زندگی کی مرکزیت مسجد سے منتقل ہوکر دوسری سمتوں اور مراکز میں چلی گئی تو اُمت افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی۔

مسجد کی یہ حقیقت حضور اکرم ﷺ کے مبارک دَور سے صدیوں بعد تک قائم رہی۔ مسلمانوں نے اپنے مثالی دَور میں جتنے شہر اور بستیاں آباد کیں، اُن میں مسجد کو مرکزیت حاصل رہی۔ چناں چہ جب کوفہ، بصرہ اور قیروان وغیرہ کی بنیادیں رکھی گئیں، تو ان کے نقشوں میں مساجد کو مرکزی مقام دیا گیا۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے مسجد میں پنج وقتہ حاضری اور جمعے کے روز لازمی حاضری کا اتنا تاکیدی حکم اسی لیے دیا ہے کہ مساجد میں جآکر نماز پڑھنے سے مسلمانوں کے مابین اخوّت و محبت کے تعلقات مستحکم ہوتے ہیں۔

تمام مسلمان ایک صف میں قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوتے ہیں، تو اُن میں شاہ و گدا، امیر و غریب، حاکم و محکوم، آقا و غلام، عالم و جاہل، پیرو مرید اور چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں رہتا۔ پھر سب ایک امام کے پیچھے، اُس کے اشاروں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں، تو تمام امتیازات ختم ہوجاتے ہیں اور تمام مسلمان اس فرمانِ خداوندی کے مطابق کہ ’’پس، تم اس کی نعمت کی وجہ سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔‘‘ یک سر شیر و شکر ہوجاتے ہیں۔ نیز، مسجد ہی کے طفیل مسلمانوں کے درمیان اتّحاد و اتفاق کا بے مثال و لازوال رشتہ اور معاشرتی مساوات قائم ہوتی ہے۔ سب کلمہ گو اخوّت کے رنگ میں رنگ کر ایک ہوجاتے ہیں۔ (جاری ہے)