• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ۔وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیررانا ثنا اللہ بلند آواز میں کہہ رہے تھے کہ ہمارے نمبر ز پورے نہیں لہٰذا ہمیں اس وقت تک آئینی ترمیم لانے کی بات زبان پر نہیں لانی چاہیے ۔حکومت کے پاس نہ صرف قومی اسمبلی میں پورے نمبر نہیںتھے بلکہ سینیٹ میں بھی اس کو کم از کم 10ارکان کی کمی کا سامنا تھا ،اس صورت حال میں جمعیت علما اسلام کے ارکان کی اہمیت بڑھ گئی اور مولانا فضل الرحمن تمام تر دبائو کے سامنے کھڑے ہوگئے اور ثابت کر دیا کہ وہ مطالبات منوائے بغیربازارِ سیاست میں اپنے ارکان کا سودا نہیں کریں گے۔ مولاناکل تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اتحادی تھے 8فروری 2024کے انتخابات نے ان کو اپوزیشن بنچوں پر لابٹھایا ۔بہر کیف مولانا فضل الرحمٰن نے تاحال آصف زرداری اور بلاول کی مانی اور نہ ہی وزیر اعظم شہباز شریف کی ایک سنی ۔ حکومت عجلت کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کرانے پر تلی ہوئی تھی لیکن مولانا کے عدم تعاون سے آئینی ترمیم موخر کر نا پڑی ۔26ویں آئینی ترمیم عام ترمیم نہیں جس پر تمام سیاسی جماعتیں آنکھیں بند کر دستخط کر دیں یہ آئینی ترمیم عدالتی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرنے کی ترمیم ہے ۔در اصل مولانا فضل الرحمن نے شروع دن سے ایسا محتاط طرز عمل اختیار کر رکھاتھا جس سے ان کے بارے میں حتمی رائے کااظہارمشکل نظر آتا تھا،وہ کچھ باتوں کی حمایت کر رہے تھے اوروسیع تر مشاورت کا درس دے بھی رہے تھے۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ہونے سے قبل انہوں نے ایوان میں دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ’’ جے یو آئی ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کی کسی صورت حمایت نہیں کرے گی ‘‘۔ البتہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو مشورہ دیا کہ فی الحال آئینی ترمیم کو موخر کر دیا جائے اور اس پر اسی طرح اتفاق رائےپیدا کیا جائے جس طرح ماضی میں منظو رکی گئیں ترامیم کے وقت کیا گیا ۔ مولانا فضل الرحمن کو 26ویں آئینی ترمیم کی کچھ شقوں پر تحفظات ہیں اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی یہ آئینی ترمیم کسی صورت قبول نہیں،قیدی نمبر804نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا ہے کہ ’’اس ترمیم کا مقصدمجھے جیل میں رکھنا ہے حکومت آئینی عدالت اس لئےلا رہی ہے کہ سپریم کورٹ سے ڈری ہوئی ہے ‘‘ شنید ہے کہ آئینی ترمیم میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ کو بنیادبنا کرآئینی عدالت کے قیام کی تجویز رکھی گئی ہے ، وہی میثاق جمہوریت جس پر 2006میں لندن میں مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے دستخط کئے تھے،بعدازاںپی ٹی آئی سمیت کئی جماعتوں نے اس دستاویز سے اتفاق کیا تھا ۔اگرچہ حکومتی حلقوں کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے مولانا فضل الرحمن کو راضی کر لیا جائے گا لیکن سر دست مولاناکی گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے انہوں نے حکومت کی طرف سےپیش کردہ آئینی ترامیم کے مسودہ کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے رہنما اس کو بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی مسلسل مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ صدر مملکت آصف زرداری اور وزیر اعظم شہبازشریف کی ملاقاتوں کے بعدنواز شریف کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات متوقع تھی لیکن شایدمولانا کے سخت موقف کے باعث یہ ملاقات نہ ہو سکی ۔کہا جاتا ہے آئینی ترمیم میں سویلین کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوںمیں بھجوانے کی تجویز ہے،وفاقی آئینی عدالت چاروں صوبوں کے چیف جسٹسزاور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل ہو گی، آئینی عدالت کے چیف جسٹس کیلئے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیر اعظم کو بھجوائے گی قومی اسمبلی کی کمیٹی3 ججوں میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی یہ کمیٹی قومی اسمبلی کے 8ارکان پر مشتمل ہوگی جس کا انتخاب اسپیکر قومی اسمبلی کرئیگا، اس میں نمائندگی پارلیمانی پارٹی کے تناسب سےدی جائیگی، کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے7روز قبل سفارشات وزیر اعظم کو بھجوائے گی۔مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سے 68سال کر دی جا ئیگی، سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں 3سال کیلئے تعینات ہو گا ،اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم میں 19ویں ترمیم کی تنسیخ بھی شامل کی گئی ہے جو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے دبائو ڈال کر ججوں کی تقرری کا مکمل اختیار وفاقی جوڈیشل کمیشن کے پاس رکھ لیا تھا، اب آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں ترمیم کرنے کی تجویز ہے۔

کل تک پی ٹی آئی کی قیادت کی توپوں کا رخ مولانا فضل الر حمن کی طرف تھاآج وہ باہم شیرو شکر ہیں ، اسد قیصر نے مولانا فضل الرحمن کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کرکےمولاناسے حکومتی مسودہ مسترد کرانے کا اعلان کرا دیا۔ وکلا تنظیمیں بھی آئینی ترمیم کے خلاف سرگرم عمل ہو گئی ہیں تحریک چلانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم تارڑ نے بھی معذرت خوانہ رویہ اختیار کر لیا ہے۔ حکومت کی طرف سے برملا کہا جا رہا ہے بلاشبہ26اکتوبر 2024ء کوسپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے ۔ سردست مولانا فضل الرحمن نے ’’ناں‘‘ کر کے آئینی ترمیم کو موخر کر ا دیا ہے لیکن تا حال پی ٹی آئی کے بانی عمران خان مولانا کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انہوں نےصحافیوںسےگفتگو میںکہاکہ ’’فضل الرحمن کے کردار بارے کچھ کہہ نہیں سکتا ۔حکومت نے آئینی ترمیم لانی ہی ہے ۔‘‘پی ٹی آئی کو مولانا فضل الرحمٰن کے ’’نعرہ مستانہ‘‘ سے تقویت ملی ہے جس کے باعث انہوں نے اپنی توپوں کارخ تبدیل کر دیا ہے، جوں ہی مولانا نے آئینی ترمیم کے کچھ حصوں کو قبول کیا تو پی ٹی آئی کا رد عمل دیدنی ہوگا ۔اس وقت پوری حکومت مولانا فضل الرحمٰن کی ’’ہاں یا ناں ‘‘ پر کھڑی ہے ۔

تازہ ترین