پی ٹی آئی کے 8ستمبر کے ہنگامہ پرور جلسے کے بعد ایک بار پھر سیاسی انتشار اور بے چینی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جس میں علی امین گنڈا پور وزیرِ اعلیٰ کی پی ، خالد خورشید سابق وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان اور سابق وفاقی وزیر مراد سعید کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ تقریروں نے مسائل میں گھِرے ہوئے پاکستان کو مزید مجروح کر دیاہے۔ ان تمام حضرات خصوصاََ گنڈا پور نے خواتین، صحافیوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف جو نازیبا زبان استعمال کی وہ انتہائی شرمناک ہے کیونکہ وزیرِ اعلیٰ کے پی نے پنجاب اور کے پی کے عوام کو لڑانے اور ملک میں خانہ جنگی کو ہوا دینے کے لیے مسلح لشکر لے کر پنجاب پر چڑھائی کرنے اور بزورِ طاقت عمران خان کو جیل سے چھڑانے کی جو دھمکی دی ہے ۔ وہ انتہائی قابلِ مذّمت ہے۔ پی ٹی آئی کو اسکی سابقہ اشتعال انگیز حرکات کی وجہ سے ایک عرصے سے عوامی جلسہ منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ جس پر جمہوریت پسند حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید بھی کی جا رہی تھی کہ جلسے جلوس کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے ، جس سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے خود بھی اپنے کالموں میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا اور الیکشن 24کے بارے میں بھی میرے بہت سے شکوک پائے جاتے ہیں ۔ جس کا اظہار میں نے 8فروری کے انتخابات کے فوراََ بعد شائع ہونے والے اپنے کالم ’’ انتخابات کے حقیقی نتائج‘‘ میں بھی کیا تھا ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حقوق کے ساتھ فرائض بھی جڑے ہوتے ہیں۔ 8ستمبر کے جلسے کی اجازت حکومت اور ریاست نے جس خیر سگالی جذبے کے تحت دی تھی اس کا تقاضا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت جلسے میں حکومت پر جتنی مرضی تنقید کرتی لیکن ریاستی اداروں ، ملکی یک جہتی اور اخلاقی قدروں کو پامال نہ کرتی ۔ لیکن اپنی سابقہ روایات کے مطابق پی ٹی آئی لیڈر شپ نے نفرت ، تشدّد ، تقسیم ، فتنہ فساد اور بدبانی کی ہر حد کو پار کر لیا۔ یوں لگتا تھا کہ دشمنوں کا کوئی لشکر پنجاب فتح کرنے کے لیے تیا رہو رہا ہے۔اس کے بعد پی ٹی آئی کے اندر موجود سیاسی شعور رکھنے والے سنجیدہ حضرات بھی دفاعی پوزیشن پر آگئے اور انہوں نے علی امین گنڈا پو رکے بیانات کو کھلے عام سپورٹ نہ کیا لیکن عمران خان کے اس بیان کے بعد کہ وہ گنڈا پور کے بیان کے ساتھ کھڑے ہیںاور جو لوگ اُن سے متفق نہیں وہ بزدل ہیںاور بزدلوں کے لیے پارٹی میں کوئی جگہ نہیں۔ اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور تمام پارٹی لیڈروں نے علی امین گنڈا پور کے موقف کی حمایت کرنا شروع کردی۔ میں نے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ دلیری اور حماقت میں ایک ہلکی سی لکیر ہوتی ہے۔عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ اسے یہ لکیر کبھی نظر نہیں آئی ۔ جسکی وجہ سے وہ حکومت میں رہ کر حکومتی امور اور معاملات کو اس قدر تباہ کر گیا کہ انہیں درست کرنے میںبرسوں لگیں گے اور بطورِ اپوزیشن لیڈر اس نے ایسی غیر دانشمندانہ روایات چھوڑی ہیں جن سے پاکستانی سیاست کا دامن مزید داغدار ہو گیا ہے۔ اس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی سے مخلص نہیں۔ اور اسکی انا سب پر بھاری ہے۔ وہ اپنے مفاد کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کی نہ صرف خلاف ورزی کر سکتا ہے بلکہ آئی ایم ایف پر دبائو بھی ڈال سکتا ہے کہ وہ اس کے اپنے محبوب ملک کو معاشی طور پر تباہی یعنی دیوالیہ پن کے گڑھے میں ڈال دے۔ پی ٹی آئی کے شورش زدہ جلسے کے ردّ ِ عمل میں پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا۔ وہ بھی قابلِ مذّمت ہے۔ پس منظر میں پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ میں جو فکر انگیز خطاب کیا اسے ملک کے سنجیدہ حلقوں کی جانب نے خوب سراہا جا رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت بھی ہوتا ہے کہ ذہانت اور سیاسی بصیرت ایک خداداد صلاحیّت ہے جس کا عمر یا تجربے سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں نوجوانوں کی پارلیمنٹ میں موجود گی کے حوالے سے کہا کہ آج ہم سیاستدانوں کے طرزِ عمل کو دیکھ کر کوئی نوجوان سیاست دان بننے کی خواہش نہیں کرے گا۔ پیپلز پارٹی وہ واحد پارٹی ہے جس کے محض کارکنوں نے ہی کوڑے ، پھانسیاں اور جیلیں نہیںبھگتیں بلکہ اس کے بانی چیئر مین کے پورے خاندان کو شہید کر دیا گیا۔ ننھا بلاول اپنی کمسن بہنوں اور والدہ کے ہمراہ اپنے اسیر والد سے ملنے کے لیے مختلف جیلوں میں جاتا رہا ہے۔ وہ کو ن سا ظلم ہے جو اس خاندان پر نہیں کیا گیا لیکن پہلے بی بی شہید اور بعد میں آصف علی زرداری نے اپنی حکومت میں اپنے کسی مخالف سے کوئی بدلہ نہیں لیا۔ خاص طور پر صدر آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں پہلی مرتبہ پاکستانی جیلوں میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ بلاول نے پی ٹی آئی کو یہی مشورہ دیا کہ سیاست میں قیدو بند اور جیلیں کاٹنے کے دوران تحمّل کے ساتھ اپنے مقدمات میرٹ پر لڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی نے جس طرح ماحول کو خراب کردیا ہے، وہ کسی کیلئے ٹھیک نہیں ۔ اس کے جواب میں پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا وہ بھی غلط ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے تحفّظ اور احترام کیلئے ’’چارٹر آف پارلیمنٹ‘‘ کی تجویز بھی پیش کی جسے سب نے سراہا ۔ پاکستان کو اپنی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ایسے ہی نرم مزاج اور نرم خو نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔ آج کا میرا شعر
دیکھ سکتے ہیں جسے اندھے بھی ، بہرے بھی سنیں
پیار میں قدرت نے وہ حیران کن تاثیر دی ہے