• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مارسل پرائوست نے لکھا تھا ’’کسی خاص شکل کو یاد کرنے کے معنی ہیں کسی خاص لمحے کا افسوس کرنا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ گھر ، گلیاں اور کوچے بھی گزرتے برسوں کی مانند اوجھل ہوئے جاتے ہیں‘‘۔ گلی کوچے اور مکان انسانوں ہی سے معنی پاتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اس برس موسم سرما بہت سخت گزرا۔ مصدق سانول، علی افتخار جعفری ، مسعودعالم اور جمیل عمر سمیت کتنے ہی دوست رخصت ہو گئے جن کے ہوتے ہوئے دن کو شام کرنا ایک خوشگوار سرگرمی تھی۔ رات کی تاریکی میں صبح کے اجالے کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ سرحد پار سے خوشونت سنگھ کے چلے جانے کی خبر بھی آئی۔ ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ دیکھا گیا کہ پاکستان میں سیاسی خط تقسیم کے دونوں طرف لکھنے والوں نے محبت اور احترام سے خوشونت سنگھ کو یاد کیا۔ ان کی جرأت، بے باکی اور حس انصاف کی تعریف کی گئی۔ یہ سب پڑھتے ہوئے جہاں خوشونت کی بے تکلف شخصیت کا جادو سر چڑھ کے بولتا رہا، وہیں ایک خیال بار بار دل میں آتا رہا کہ پاکستان میں رائے عامہ کے رہنما خوشونت سنگھ کی جن خوبیوں پر دفتر سیاہ کر رہے ہیں، انہیں اپنے ملک میں ان خوبیوں والے انسانوں سے اتنی نفرت کیوں ہے۔ یہاں تو وہ جرأت کو ہرزہ سرائی کہتے ہیں۔ بے باکی کو گستاخی قرار دیتے ہیں۔ حس انصاف کو غداری سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک نوجوان نے اردشیر کائوس جی سے کہا ’’جناب اپنا سر بلند رکھئے،ہمیں آپ پر فخر ہے‘‘۔ کائوس جی نے ترنت پلٹ کر کہا ’’میرا سر کافی بلند ہے،تم بھی سیدھا کھڑا ہونا سیکھو‘‘۔اتفاق سے ان دنوں کلدیپ نائر کی خودنوشت سوانح پڑھ رہا ہوں۔ کلدیپ نائر کی تحریر میں وسعت نظر بھی ہے اور وسعت قلب کی تازگی بھی۔ وہ 1984ء میں سکھوں کے قتل عامٗ، 1992ء میں بابری مسجد کے انہدام، کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و ستم اور گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ اسی پیمانے پر دیکھا جائے تو خالصتان کے نام پر بھارتی پنجاب میں بیرونی مداخلت کا ذکر واہگہ کے اس طرف بھی ہونا چاہئے۔ 1992ء کے جنوری میں پاکستان میں مندروں پر جو قیامت ٹوٹی، اس کی ان کہی سرکاری سرپرستی کا کہیں ذکر آنا چاہئے۔ کوئی تو سوال کرے کہ طیارہ اغوا کر کے قندھار لے جانے والے چند ہی روز کے اندر پاکستان میں کیسے جلوہ افروز ہوئے۔ ہمیں تو رضا رومی جیسے شریف النفس شہری پر بزدلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھنا پڑتا ہے۔ کیا اس لئے کہ رضا انگریزی میں لکھتا ہے اور اردو صحافیوں نے حب وطن پر بزعم خود اجارہ قائم کر رکھا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی کی رسائی بمشکل ایک فیصد پاکستانیوں تک ہے اور عوام تک پہنچنے کے لئے واحد مؤثر ذریعہ اظہار اردو ہے۔
گزشتہ دنوں یاسر پیرزادہ اور ایاز امیر کے اٹھائے ہوئے سوالات پر اچھی بحث ہوئی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ بحث بڑی حد تک دلیل کے دائرے میں رہی۔ ذاتی حملے نہیں کئے گئے۔ ہماری تاریخ سے آگاہ افراد جانتے ہیں کہ 70ء کے انتخابات کے آس پاس ہمارے سیاسی مکالمے میں شائستگی کا یہ چلن بہت کمزور ہو گیا تھا بلکہ لاہور کی ٹولنٹن مارکیٹ کے باہر دست و گریباں ہونے والے صحافی بھی کچھ ایسے گمنام نہیں۔ اس دوران ایک سوال بار بار اٹھایا جاتا رہا کہ ان مباحث کو اٹھانے کا یہ کیا موقع تھا؟ دیکھئے،چیخوف کے کوچوان کا بیٹا مر جاتا ہے تو وہ اپنا دکھ سنانے کے لئے گھوڑے سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ بحث کو دبانا تو اس کے حق میں جاتا ہے جس نے غیر منصفانہ فائدہ حاصل کیا ہو۔ بہت برس پہلے حافظ آباد کی ایک ماں جون کی چلچلاتی دھوپ میں گورنر ہائوس کے باہر احتجاج کرنا چاہتی تھی۔ اس کا بیٹا قتل ہو گیا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر نے اسے بری طرح ڈانٹا تو وہ مال روڈ کے فٹ پاتھ پر جا بیٹھی۔ اس کی آواز بیٹھ گئی مگر آنسو بہے جاتے تھے اور پورا جسم دھونکنی کی طرح جھٹکے کھاتا تھا۔ ناانصافی کے خلاف آواز کو دبایا جا سکتا ہے،ناانصافی کا احساس جبر سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جن سوالات نے ہمارے جسد اجتماعی میں تخریب کی فصل بوئی ہے وہ سوال تو کھٹکتے رہیں گے۔ مسئلہ قائداعظم محمد علی جناح کی محترم ذات کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں ریاست اور سیاست کے بندوبست کو ایک خاص شکل دینے کی کوشش کی تھی، جو ناکام ہو گئی ہے۔ اس سے انصاف، ترقی اور امن کا راستہ کھوٹا ہوا ہے۔ جب قائداعظم کے طرز سیاست کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو اس سے اجتماعی انسانی زندگی کے چند بنیادی اصولوں کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔ اگر ہم پاکستان میں جمہوریت چاہتے ہیں تو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ جمہوریت میں حاکمیت اعلیٰ عوام کی ملکیت ہے۔ شہریوں کے مابین نسل، زبان اور عقیدے کی بنیاد پر امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت کا نصب العین عوام کی ترقی اور خوش حالی ہے۔ جمہوریت کو برخود مذہبی پیشوائوں کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی نہیں بنایا جا سکتا۔ جمہوریت سیکولرازم کے بغیر ممکن نہیں۔ مذہبی بنیاد پر ریاست کی غیر جانبداری قائم کئے بغیر جمہوریت کے ثمرات حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ سیکولرازم کو لادینیت قرار دینا محض لسانی نکتہ طرازی نہیں، سیاسی فریب کاری ہے۔ سیکولرازم ریاست کی مذہبی غیر جانبداری کا اعلان ہے۔ البتہ جو لوگ سیکولرازم کے مخالف ہیں وہ پیشوائیت اور پاپائیت مسلط کرنے کے خواہاں ضرور ہیں۔ اس کا ایک اشارہ تو خالد عمر خراسانی صاحب کے اس پیغام میں ہے جو انہوں نے جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر سراج الحق صاحب کے نام بھیجا ہے۔ فرماتے ہیں ’’ہماری منزل ایک ہے البتہ طریقہ کار کا اختلاف ہے۔ ‘‘سبحان اللہ۔ طریقہ کار کے اختلاف میں ساٹھ ہزار جانیں جاتی رہیں۔ 2009ء کے موسم گرما میں سوات کے مولانا صوفی محمد نے جلسہ عام میں آئین، عدلیہ اور پارلیمنٹ کی بیک جنبش لب دھجیاں بکھیریں تو محترم منور حسن نے بھی ارشاد فرمایا تھا کہ ’’طریقہ کار کا اختلاف ہے، ہماری منزل ایک ہے‘‘۔تب کسی نے دریافت نہیں کیا کہ صاحب آخر وہ منزل ہے کیا جس کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ملک کی سرزمین خون ناحق سے رنگین ہوئی جاتی ہے۔ اب بھی خالد عمر خراسانی صاحب سے استفسار کی تاب اور مجال کسے؟ سراج الحق صاحب کے نام یہ پیغام یکجہتی پہنچا ہے انہیں وضاحت کرنا چاہئے تھی۔ ایک ہفتہ گزرنے کو آیا اس اجمال کی تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ وہ کون سا نصب العین ہے جس پر صوفی محمد سے منور حسن تک اور خالد عمر خراسانی سے سراج الحق تک فقیہان شہر متفق ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ تحریک طالبان جمہوریت کی مخالف ہے اور طالبان نے اس ضمن میں کسی پردہ پوشی کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی۔ یہی نکتہ سمجھنے کی ہمیں ضرورت ہے کہ جہاں جمہوریت نہیں ہو گی وہاں پیشوائیت کا ظہور ہو گا ہٹلر کی فسطائیت قائم ہو گی یا اسٹالن کی پرولتاری آمریت کا استبداد بھگتنا پڑے گا۔ یہ سوچنا درست نہیں کہ ہم جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے انحراف بھی کریں اور یہ دعویٰ بھی درست ہو کہ ہم نے جمہوریت کا ایک مقامی نسخہ تیار کیا ہے۔ جمہوریت گھریلو دستکاری نہیں۔ جمہوریت جعلی ادویات یا جعلی شیمپو نہیں کہ گلی محلوں میں اس کا کارخانہ لگایا جا سکے۔ جمہوریت کی خوشبو سے لطف اندوز ہونا مقصد ہے تو جمہوریت کے حقیقی اجزائے ترکیبی کی طرف لوٹنا ہو گا۔
تازہ ترین