لندن، متحدہ ریاست برطانیہ کا دارالحکومت اور وہاں کا سب سے زیادہ گنجان آباد شہر ہے، جو دریائے تھیمز کے ساتھ آباد ہے۔ لندن گزشتہ دو صدیوں سے اس خطے میں آباد کاری کا مرکز رہا ہے۔ اس شہر کی بنیاد رومیوں نے رکھی، جنہوں نے اس کا نام لنڈینیم رکھا۔
اس شہر میں غیر ملکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد آبادہے۔ ایک اندازےکے مطابق شہر میں 300زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہ شہر دنیا میں معاشی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کاحامل ہے۔ لندن بتدریج اب فلک بوس عمارتوں کا شہر بھی بنتا جارہا ہے، تاہم تنقید نگاروں کی نظر میں بلند عمارتیں لندن کے روایتی حُسن اور اسکائی لائن کو تباہ کر رہی ہیں۔ لند ن کی معروف عمارات کی ایک طویل فہرست ہے اور ان سب کا اس مضمون میں احاطہ کرنا ممکن نہیں، تاہم چند ایک کا ذکر کرتے چلیں۔
ومبلے اسٹیڈیم
لندن میں واقع یہ دنیا کا پہلا ایسا اسٹیڈیم ہے، جس کی تعمیر پر 1.5ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔ 2006ءمیں مکمل ہونے والے اس اسٹیڈیم میں 90ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے۔
بگ بین
دنیا کے عجائبات میں سے ایک، اوردنیا بھر میں لندن کی پہچان قدیم گھڑیال ’’بگ بین‘‘ آج 150 برس کاہو چکا ہے۔ اس کا وزن ساڑھے پندرہ ٹن ہے جبکہ ڈائل کا قطر ساڑھے بارہ فٹ اور سوئی کا طول گیارہ فٹ ہے۔ یہ گھنٹہ، وائٹ چیپل بل فاؤنڈری میں تیار کیا گیا تھا۔
لندن کے لوگ عام طر پر اسی سے اپنی گھڑیوں کے اوقات درست کرتے ہیں۔ اسے رات بھر روشن رکھا جاتا ہے۔ جس مینار میں یہ گھنٹہ نصب ہے اس کی بلندی تین سو بیس فٹ ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ مینار بھی بمباری کا نشانہ بنا اور گھنٹے کے سامنے والی بالکونی کو نقصان پہنچا۔
اس کے قیام کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے، 1834ء میں لندن میں ہولناک آتشزدگی کے نتیجے میں پارلیمنٹ کی پرانی عمارت کا بیشتر حصہ جل کر تباہ ہوگیا، اس دور میں آرکیٹیکٹ چارلس بیری کو ویسٹ منسٹر کی نئی عمارت کا ڈیزائن تیار کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔
انھوں نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے ساتھ ایک کلاک ٹاوربھی تعمیر کردیا اوراس پر گھنٹہ بجانے والی ایک گھڑی بھی نصب کی۔ کلاک ٹاور کی تعمیر 1859ء میں مکمل ہوئی اور31مئی 1859ء کو پہلی مرتبہ گھڑی نے کام شروع کیا۔ ان سوئیوں کے حرکت میں آنے کے ٹھیک6ہفتے بعد اس گھڑی کے گھنٹے کی آوازپہلی مرتبہ لندن کی فضاؤں میں گونجی۔ جب سے آج تک اس کی سوئیاں اپنے دائرے میں گھوم رہی ہیں۔
نیچرل ہسٹری میوزیم
لندن کا نیچرل ہسٹری میوزیم دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس عجائب گھر میں ہزارہا نمونے موجود ہیں، جو کرۂ ارض کی تاریخ کے حوالے سے تحقیق اور مطالعے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ تاریخ اور عجائبات میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس میوزیم میں نادر خزانہ موجود ہے۔ اگر آپ لندن کے عجائب گھر کی سیر کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو اب آپ کو اس مقصد کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرکے برطانیہ جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
گوگل نے گھر بیٹھے نہ صرف لندن بلکہ برلن کے عجائب گھر کی بھی سیر کا انتظام کردیا ہے۔ گوگل، لندن اور برلن عجائب گھروں کی انتظامیہ کے درمیان معاہدہ طے پاجانے کے بعد انٹرنیٹ کمپنی نے اپنی ’’اسٹریٹ ویو‘‘ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان عجائب گھروں کی اندرونی و بیرونی تصاویر حاصل کیں اور پھر ڈیجیٹل طریقے سے جوڑ کر ان معروف عجائب گھروں کو ایک ورچوئل ورلڈ میں منتقل کردیا۔
انٹرنیٹ صارفین اپنے گھر میں بیٹھ کر ان ورچوئل عجائب گھروں کی سیر کرتے ہوئے تین لاکھ سے زائد مختلف عجائبات، نوادرات اور تاریخی نمونوں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ ان میں دیوقامت ٹی ریکس ڈائناسار سے لے کر ہاتھیوں کی معدوم نسل ’’میمتھ‘‘ کے فوسلز کے علاوہ ہر طرح کے چرند، پرند، نباتات، حیوانات اور سائنسی علوم کی دیگر شاخوں کے نمونے شامل ہیں۔
گوگل کے اس آن لائن عجائب گھر کو نو حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ ورچوئل وزیٹر اس عجائب گھر کی360ڈگری کی یوٹیوب ویڈیوز سے لطف اندوز ہونے کیلئے گوگل کے ورچوئل ریئالٹی ہیڈسیٹ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔
سینٹ پال کیتھیڈرل
لندن دو ہزار سال پرانا شہر ہے۔ 1666ء میں جب آگ لگنے سے سارا لندن جل گیاتھا تو اس کو باعثِ رحمت سمجھا گیا کیونکہ اس کی وجہ سے طاعون کی وبا ختم ہوگئی تھی۔ جہاں سے آگ شروع ہوئی وہاں یادگار کے طور پر ایک ٹاور بنایا گیا ہے، جس کی311سیڑھیاں ہیں۔ ممتاز فلسفی اور سائنسدان ڈارون اور نیوٹن، ویسٹ منسٹر ہی میں دفن ہیں۔
کئی مشہور مصور، آرکیٹیکٹس اور سائنسدان سینٹ پال کتھیڈرل میں دفن ہیں۔ سینٹ پال کتھیڈرل کی پانچ سو سے زائد سیڑھیاں ہیں اور اس کے اوپر سے سارا شہر نظر آتا ہے۔ یہاں آنجہانی لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کی شادی بھی ہوئی تھی۔