بعض فاضل کالم نگاروں کی نظر ہمیشہ دوسروں کے ’’چہرہ‘‘ پر ہی رہتی ہے، شاید اُنھوں نے اپنا چہرہ نہ کبھی پڑھا وگرنہ وہ اپنے ہی چہرہ کی تحریرپڑھ کر ڈ ر جاتے کہ اُنکا چہرہ سچ بول رہا ہے یا اُنکی آنکھیں جھو ٹ بو ل رہی ہیں ،جھوٹ اور سچ کی اس کیفیت میںجب اُن سے کوئی بات نہیں بن پاتی تو وہ کسی گمنام بلکہ بے نام دوست بودی وودی کا سہار ا لے کر وطن پاک کی اعلیٰ مقتدر شخصیت کو ہدف تنقید بناتے ہیں ، موصو ف قلم کازور دکھاتے ہوئے بعض اوقات اوٹ پٹا نگ، پہ اُتر آتے ہیں ، مثلا پنجاب کے وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف کا نئی بر طا نوی وزیر اعظم کو مبارکباد دینا اس قیاس سے جوڑ لینا کہاں کی شر افت اور کیسی صحا فت ہے کہ وہ وزیر خارجہ بننا چا ہتے ہیں پھر وزیر اعلیٰ کو یہ مشورہ کہ وہ ذرا سنبھل کرچلیں کہ نئی برطا نوی وزیر اعظم بلاول بھٹو کی آنٹی ہیں،ارے چہرہ دکھانے اورسجانے والے صا حب ان بے تُکی اور بے مقصد باتوں سے عوام اورپوری قوم کا کیاسروکار۔ کیافائدہ ہے ان باتوں کا ۔ خواہ مخواہ کسی کی دل آزاری کرنا کہاں کی اور کیسی ذہانت ہے ۔ پھر یہ کہ بھارتی وزیر اعظم نر یند مودی کے ہر فعل کو اپنے وزیر اعظم سے جوڑ نانہ صرف خلاف اخلاق ہے بلکہ قومی جرم بھی ۔ اگر وزیر اعظم محمد نواز شریف نے نر یند مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی ، اُنھیں آم بھجوائے یا بھارتی وزیر اعظم ازخو د وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی میںشریک ہوئے تو اس میں حر ج ہی کیا ہے سفارتی آداب اور خا رجہ پالیسی کا حصہ ہیں یہ سب باتیں۔ شاید موصوف کو میثاق مدینہ ’’اور صُلح حدیبیہ ‘‘یاد نہیں ،ہادی برحق احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہمیشہ افہام و تفہیم اور صلح جوئی کو پسند فرمایا ہے ۔
جہاں تک دشمن دیں کے اصل چہرہ کی بات ہے تو اس سے پوری ملت اسلامیہ آگاہ ہے،ہندو بنئے کی ریشہ دوانیوں سے کون واقف نہیں ،نہ صرف پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت بلکہ مسلم امہ کا ہر فرد بھاتی ظلم وبربریت کی شدید مذمت کرتا ہے اور بھارت کے اس گھنائونے چہرے پر ذلت ورسوائی کی کالک ملتا ہے اور یہ عزم رکھتا ہے کہ پوری ملت اسلامیہ مظلوم کشمیریوں کیساتھ ہے اور انہیں ان کے حق خود ارادیت کے ملنے تک چین سے نہیں بیٹھے گی ،کشمیری شہداء کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ ’چہرہ‘ دکھانے اور سجانے والے صاحب کو یہ تو ضرور نظر آرہا ہوگا اگر ان کے ’چہرہ‘پر ان کی آنکھیں بصارت کے ساتھ کچھ بصیرت بھی رکھتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور ظلم وبربریت کے دوران نہتے کشمیروںنے پاکستانی پرچم لہرا کر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ انہیں پاکستان ،پاکستانی حکومت ،پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستانی عوام پر مکمل اعتماد ہے ،ان کا ایمان دیکھئے اور ’’چہرہ‘‘والے عظیم لکھاری کی منطق بھی پڑھئے اورسنئے ،اپنے دشمن کو جواب فوج دے یا وزارت خارجہ ایک ہی بات ہے،دونوں وطن پاک کے مقدس اور معظم ادارے ہیں ،اپنی تحریروں کے ذریعے اقوام عالم کو قوم ،حکومت اور قومی اداروں کے مکمل اتحاد و یگانگت اور قومی یکجہتی کا تاثر دینے کی بجائے اپنے ہی وزیر اعظم اور اداروں کو ہدف تنقید بنانے کا تو ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ آپ دنیا میں اپنی اور اپنے ملک کی بدنامی اور رسوائی کرنا چاہتے ہیں،بلاشبہ آخری فتح حق کی ہوگی کیونکہ …حق و باطل کے معرکہ میں سدا
فتح بالیقین ہیں ہم لوگ
بھارت کا منہ کالا ہوگا،کشمیریوں کا خون ضرور رنگ لائے گا ،غداروں کے منہ میں مٹی پڑے گی مگر ہم اپنی صفوں کو درست کرلیں،ہم تو ایک ہی برلاس کو جانتے ہیں جو ہمارے بابا کے قریبی احباب میں سے ہیں ،سینئر بیورو کریٹ،ممتاز دانشور ،شاعر اور ادیب ہیں کیا خوب لکھتے ہیں کہ
چلتے چلتے چُور بدن ہے ،پائوں میں لاکھوں چھالے ہیں
ہم کو دیکھ کتنی تھکن ہے پھر بھی پیر سنبھالے ہیں
پاکستانی قوم اور پاکستانی قیادت چاہے وہ سیاسی قیادت ہے یا عسکری قیادت تھکن کے باوجود پیر سنبھالے ہوئے ہے،ضرب عضب کی شاندار کامیابی اس کی واضح دلیل ہے،ملک ترقی سے ہمکنار ہورہا ہے ،اقتصادی راہداری بعض دشمنوں کو ہضم نہیں ہورہی ،انہیں یہ بد ہضمی انشااللہ لے ڈوبے گی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے کرتا دھرتائوں سے دست بستہ التماس ہے کہ وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں ،کسی قلمکار،کالم نگار یا لکھاری کی کوئی تحریر نشر یا شائع کریں تو برابر میں قومی وضاحت اور ترجمانی کو بھی بھرپور جگہ دیں تاکہ دونوں طرف کا موقف سامنے آسکے،ورنہ یہ پیشہ ورانہ صحافتی بددیانتی ہوگی ،دوسروں پر بات کرنا آسان ہے مگر آئینہ میں ہر شخص صرف اپنے ہی چہرے کو سنورتا دیکھنا چاہتا ہے،اپنے دامن اور بند قباء پر گہری نظر کی ضرورت ہے ،دوسرے اپنی ذات سے کئی گنا اچھے نظر آئینگے۔