کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں آزاد کشمیر کے انتخابی جلسوں میں علاقائی مسائل کے بجائے دیگر مسائل پر بات چیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رہنماء ڈاکٹری شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کو وسائل وفاقی حکومت کی جانب سے جاتے ہیں ، اگر یہاں حالات خراب ہیں اور کوئی واضح پالیسی نہیں تو اس کے اثرات براہ راست آزاد کشمیر پر جاتے ہیں ۔عمران خان نے آزاد کشمیر جلسے میں واضح کہا ہے کہ ہم نے جمہوریت کو بچانا ہے، مسلم لیگ ن کو آئینی طریقے سے نکالیں گے ، وزیر اعظم کا احتساب ہونا چاہئے، وزیر اعظم بادشاہت کر رہے ہیں وہ احتساب پر یقین ہی نہیں کر رہے ۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنماء فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن کی اگر کل کی تقریر دیکھیں تو انھوں نے کشمیر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا ذکر کیا ہے ۔پی ایم ایل کی حکومت کو جرنیل نہیں ہم نکالیں گے ۔ آزاد کشمیر الیکشن میں تمام مرکز کے شامل ہونے کے سوال پر مسلم لیگ ن کے رہنماء ڈاکٹرطارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی اس سے قبل کوئی حکومت نہیں رہی ، ہماری اس وقت جتنی بھی پالیسیاں آرہی ہیں وہ ساری آزاد کشمیر میں ہمارے آئندہ کے پروگراموں کے حوالے سے آرہی ہیں ۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پیپلز پارٹی پر ہاتھ ہلکا رکھنے کی بات پر فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاناما معاملے پر حزب اختلاف جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوں ۔اگر ہم کشمیر کی بات کریں تو جس وزیر خارجہ کا اپنا کاروبار بھارت میں ہو تو وہ کشمیر کی پالیسی کیا دے گا۔ اگر 21 تاریخ کو شفاف انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی جیت کر کشمیر میں دوبارہ آئے گی ۔ہمارے الیکشن کمیشن موجود ہونے پر صدر آزاد کشمیر کو نوٹس ہوتا ہے لیکن وہاں موجود وفاقی وزراء کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا ۔ اس پر طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اگر عمران خان صاحب تقریر کر رہے ہوں تو اس میں آزاد کشمیر کا کتنا ذکر ہے ۔یہ سارا ملبہ ہمارے اوپر، پاکستان کی پالیسیوں ، پاناما اور دیگر چیزوں پر ہے۔ اس دوران گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ جس وقت یہ انتخابات ہو رہے ہیں یہ بہت اہم ہے ، آپ دیکھ رہے ہیں مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے ، مسلم لیگ ن نے تو بھارت کے خلاف کچھ نہیں کرنا ، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری پارٹی اچھا کام دکھائے تو ہماری پوزیشن مضبوط ہوتی ہے اور اہم ایسا ماحول پیدا کریں کہ جس سے مقبوضہ کشمیر کو اخلاقی مدد ملے اور بھارت پر بھی دباؤ پیدا ہو ۔ الیکشن مہم کے حوالے سے فیصل کریم کا کہنا تھا کہ ہم نے مکمل الیکشن مہم چلائی ہے اور پی پی پی کے چیئرمین نے چھ سات جلسے وہاں پر کئے ہیں ۔الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت پر سارا دارومدار ہے کہ وہ شفاف الیکشن کرائے ۔ہماری خواہش ہے کہ فوج کی زیر نگرانی الیکشن ہوں اور فوج اس کو کنٹرول کرے ۔ مرکز اور دوسری سیاسی جماعتوں کی لڑائی کا آنے والے دنوں میں رخ کے حوالے سے شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ یہ میاں صاحب کے احتساب کا مطالبہ ہے جس پر ساری حذب اختلاف کھڑی ہے ۔پاناما لیکس حزب اختلاف نے نہیں بنائی یہ بین الاقوامی طور پر سامنے آیا ۔ سندھ کے حوالے سے فیصل کریم کا کہنا تھا کہ سندھ میں اگر کرپشن ہے یا کرپٹ عناصر موجود ہیں تو ان کو پکڑیں ۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں قندیل بلوچ قتل اور میڈیا کی ذمہ داری کے حوالے سے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل صدیوں سے جاری ہے اس میں میڈیا کاکوئی کردار نہیں ، قندیل بلوچ ٹاپ ٹین سلیبرٹیز میں شامل ہو گئی تھی جس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہاتھا ، وہ پہلے کرکٹ کے فینز پر اثر انداز ہوئیں اور پھر مفتی عبد القوی کا معاملہ ، قندیل نے خود کو ایسا بنایا تھا کہ جس سے ان کی طرف میڈیا کو توجہ دینا پڑی ۔قندیل بلوچ یہ سمجھتی تھیں کہ میڈیا ان پر کبھی توجہ نہیں دے گا جب تک وہ ان تنازعات میں نہیں آئیں گی اور ان تنازعات کی وجہ سے میڈیا نے ان پر توجہ دی ۔قندیل بلوچ کی زندگی سے100 سو اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن ان کو قتل کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے ؟ پروگرام کے آخری حصے میں خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے رہنماء سورن سنگھ کے قتل کے بعد کے پی کے حکومت کی کی جانب سے متاثرہ خاندان کو امدادی پیکیج فراہم نہ کئے جانے پر سورن سنگھ کے صاحبزادے اجے سنگھ کا کہنا تھا کہ اعلان کردہ پیکیج میں ہمیں ابھی تک کچھ نہیں ملا ،ہم جب بھی جاتے ہیں کہا جاتا ہے آپ ایک ہفتے بعد آ جائیں آپ کا کام ہو جائے گا۔ لیکن یہ کب ہو گا ہم یہ سوال کرتے ہیں؟