• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میںصوبہ سندھ کے شہر عمر کوٹ میں توہین مذہب کے مقدمے کا سامنا کرنے والے مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر شاہنواز کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد انکے لواحقین نے انکی تدفین کی بھرپور کوشش کی، تاہم مشتعل ہجوم نے انکی لاش کو نذر آتش کر دیا۔شاہنواز کے رشتے داروں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ڈپریشن اور ہائپر ٹینشن کے مریض تھے اور انکاعلاج آغا خان ہسپتال میں جاری تھا۔

اس اندوہناک واقعے پر سول سوسائٹی نے اپنا شدید رد عمل ظاہر کیا جس کی وجہ سے حکومت کو مجبوراًڈی آئی جی اور ایس ایس پی میر پور خاص کومعطل کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ سول سوسائٹی کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے اس ہلاکت کی مذمت نہیں کی،جبکہ ڈاکٹر شاہنواز کی کزن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ انکے گھر کی خواتین گھنٹوں میت کا چہرہ دیکھنے کے لیے صحرا میں ننگے سر اور پائوںدوڑتی رہیںلیکن لاش کو گائوں کے اندر نہیں آنے دیا گیا ۔ یہ خواتین مقامی وڈیرے او رمساجد کے خطیبوں کے گھروں پر بھی گئیں لیکن انہوں نے کوئی مدد نہیں کی۔ورثا میت کو تدفین کیلئے جہانرو لے گئے جو عمر کوٹ سے 40کلومیٹرکے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن وہاں بھی مشتعل ہجوم نے لاش کو دفن نہ کرنے دیا ۔واضح رہے کہ مقدمے کے اندراج کے بعد سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شاہنواز کا ایک وڈیو بیان بھی سامنے آیا تھاجس میں انہوں نے واضح طور پر کہاتھا کہ میری مذکورہ فیس بک آئی ڈی بہت پرانی ہے جو وہ اب استعمال نہیں کرتے ۔انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا تھا کہ پولیس ، ایف آئی اے اور رینجرز کو اپنا کام کرنے دیں جس سے ہر چیز واضح ہو جائے گی۔ایس ایس پی میر پور خاص نے بتایا کہ سندھڑی کے مقام پر فائرنگ کے تبادلے میں ملزم ہلاک ہواجبکہ شاہنواز کے قریبی رشتہ داروں نے دعویٰ کیا ہے کہ خاندان والوں نے خود رضاکارانہ طور پر کراچی میں انہیں یہ سمجھتے ہوئے پولیس کے حوالے کیا کہ اب انکی سیکورٹی ،پولیس کی ذمہ داری ہوگی لیکن اسکے باوجود شاہنواز کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ایچ ار سی پی نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد اور اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مبینہ طور پر ملو ث ہونے کو پریشان کن قرار دیا ہے۔

پاکستان میں پچھلے دس بارہ سال میں کئی ایسے متشدد واقعات ہوئے جس میں ہجوم نے توہین مذہب کے نام پر عبادت گاہوں اور عام شہریوں پر حملے کیے ۔ 2017ء میں مشال خان کو انکی یونیورسٹی میں تشدد کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے2014ء میں کوٹ رادھا کشن میں ایک جوڑے کو ہجوم نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر نہ صرف قتل کیا بلکہ انکی لاشیں بھی اینٹوں کے بھٹے میں جلا دی گئیں۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے گوجرہ میں کئی مسیحی شہریوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔ آج تقریباً چار سو سے زائد افراد پاکستان کی مختلف جیلوں میں توہین مذہب کے الزام میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیںجن میںاکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پچانوے مما لک ایسے ہیں جہاں توہین مذہب کے قوانین کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں لیکن ان ممالک میں ہجوم لوگوں کو ماورائے عدالت قتل نہیں کرتے کیونکہ وہ ریاستیں اپنے شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہیں لیکن اس کے برعکس پاکستان میں ہجوم کے ذریعے ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست، انتہا پسندی کے خلاف سماج کے ہرمکتب ِفکر کو اکٹھا کر کے ایک واضح اور وسیع پیمانے پرایسی پالیسی نافذ کرے جس سے اس شدت پسندی کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ اس سلسلے میں سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے2014ء میں پشاور چرچ بم حملے کے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ معاشرے میں نفرت انگیز مواد پھیلانے والےعناصر سے سختی سے نبٹا جائے ، مدرسوں اور جدید تعلیمی اداروں کے نصاب میں سائنسی بنیادوں پر تبدیلی لائی جائے اور لائوڈ اسپیکرکے اشتعال انگیز پیغامات پر مکمل طور پر پابندی لگائی جائے۔آج پاکستانی ریاست کو اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ضیاء الحق کے دور سے چلنے والے ریاستی بیانیے کو چیلنج کیا جائے، اور فرقہ واریت، بنیاد پرستی اور جنونیت کے خلاف متحد ہوکر انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جائے ، ورنہ ہمارا معاشرہ مسلسل ایک بنجر معاشرے کی سمت چلتا چلا جائے گاجہاں قرون وسطیٰ کی یادوں کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھا۔آج ہمارے معاشرے کا سب سے اہم مسئلہ انتہا پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے لیکن ہمیں یہاں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ یہ انتہا پسندی ترکیہ ، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں کیوں نہیں ہوتی۔ اگر آج ہمیں اپنے معاشرے کو سماجی ارتقاء کی طرف لے جانا ہے تو ہمیں عقائدکا سیاسی ایجنڈے کے طور پراستعمال بند کرنا ہوگا کیونکہ پاکستانی معاشرہ مزید مشتعل عسکری لشکروں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آج اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ صوبہ سندھ کی طرح دوسرے صوبوں میں بھی سول سوسائٹی اور روشن خیال دانشور اکھٹے ہوکر ان اشتعال انگیز کارروائیوں کے خلاف سماجی رویوں کو مضبوط کریں۔

تازہ ترین