• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی شرکت کی خبر ، پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں مودی حکومت کے عمومی منفی رویے کے باعث ملک کے سیاسی حلقوں میں بالعموم خوشگوار حیرت کے ساتھ سنی گئی کیونکہ 2015 کے بعد کسی بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہوگا۔نئی دہلی میںجمعے کو وزارت خارجہ کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ وزیر خارجہ جے شنکر اسلام آباد میں ہونے والے ایس سی او سربراہی اجلاس میں بھارت کے ایک وفد کی قیادت کریں گے۔حکومت پاکستان نے اواخر اگست میں بھارتی وزیر اعظم کو ایس سی او کے سربراہی اجلاس کا باضابطہ دعوت نامہ بھیجا تھا۔پاکستان کی جانب سے نریندر مودی کو یہ دعوت آٹھ سال کے بعد دی گئی تھی، اس سے پہلے انہیں اسلام آباد میں سارک سربراہی اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔تاہم ایس سی او کے اجلاسوں میں ماضی میں بھی ان کی نمائندگی اکثر بھارتی وزیر خارجہ ہی کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا بھارتی وزیر اعظم کے بجائے وزیر خارجہ کی شرکت سے کوئی منفی تاثر نہیں لیا جانا چاہیے ۔ آٹھ سال پہلے کے رویے کے مقابلے میں مودی حکومت کی جانب سے پاکستان میں ہونے والے ایک بین الاقوامی اجلاس میںشرکت کے لیے بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد پر جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کگل مین کا یہ کہنا صورت حال کی درست عکاسی نظر آتا ہے کہ ’’ اگرچہ جے شنکر کا دورۂ پاکستان بظاہر دو طرفہ تعلقات سے زیادہ کثیر الجہتی سفارتکاری سے متعلق ہے لیکن اس کے مقاصد کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ فیصلہ بلاشبہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ بھارت کی وابستگی سے زیادہ پاکستان کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے‘‘بھارت کے ماضی کے منفی طرز عمل کے برخلاف پاکستان مثبت رویہ اپناتا رہا ہے۔ گزشتہ سال بھارتی ریاست گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ویڈیو لنک پر شرکت کی تھی جبکہ تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بذات خود بھارت گئے تھے ۔ مودی حکومت کا پاکستان میں ہونے والی ایس سی او سربراہی کانفرنس میں شرکت کے فیصلے کے عوامل میں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ پڑوسیوں کے ساتھ تحکمانہ رویوں کا نتیجہ بھارت کی بڑھتی ہوئی تنہائی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ چین اور پاکستان کے ساتھ ہی نہیں سری لنکا، نیپال اور مالدیپ کے بعد بنگلہ دیش سے بھی بھارت کے تعلقات ان دنوں سخت کشیدگی کا شکار ہیں اور بنگلہ دیشی عوام نے بھارت کے تسلط کے خلاف عملاً بغاوت کرکے اس حکومت کا خاتمہ کردیا ہے جو مودی سرکار کی کٹھ پتلی بن چکی تھی۔ بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں نہایت خوش آئند تبدیلی آئی ہے اور توقع ہے کہ بہت جلد دونوں ملکوں میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں سرگرم تعاون کا آغاز ہوگا۔ یواین جنرل اسمبلی اجلاس میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ملاقات میں سارک کی بحالی پر بھی بات ہوئی ہے۔مودی حکومت کیلئے یہ پیش رفت یقینا فکرمندی کا سبب ہوگی۔ ان حالات کے باعث اگر مائیکل کگل مین کے مطابق بھارت پاکستان کے ساتھ واقعی بہتر روابط کا خواہش مند ہے تو اسے کشمیر سمیت تمام بنیادی اختلافات کا منصفانہ تصفیہ کرنے کی خاطر نیک نیتی کے ساتھ پرامن اور بامقصد مذاکرات کی پاکستان کی مستقل پیشکش کو قبول کرکے معاملات آگے بڑھانے چاہئیں کیونکہ جنگی تیاریوں پر قومی وسائل کا بڑا حصہ صرف کرنے کے بجائے امن و استحکام کا قیام خطے کے تمام ملکوں کے عوام کی ضرورت ہے اور پائیدار ترقی و خوشحالی کا سفر اس کے بغیر ممکن نہیں۔

تازہ ترین