اسلام آباد پر حالیہ یلغار سے چند دن پہلے دانشوروں کی ایک محفل میں اس موضوع پر بحث ہو رہی تھی کہ کیا پاکستان تحریک انصاف ایک فتنہ پرور جماعت ہے؟ ایک معروف صحافی جنہوں نے عمران خان پر سب سے پہلے ’’طالبان خان‘‘ کی پھبتی کسی تھی انکا اصرار تھا کہ فتنہ پھیلانے کیلئے غیرمعمولی ذہانت درکار ہوتی ہے مگر عمران خان سطحی سوچ کا حامل شخص ہے۔ میں نے وضاحت کے پیش نظر سوال کیا، گویا آپ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان بدطینت (Evil) تو ہے مگر نابغہ (Genius) نہیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے تصدیق کی تو ایک اور دوست نے گرہ لگائی کہ اصل فتنہ تو وہ ہیں جنہوں نے قیدی نمبر 804کو مسیحا اور نجات دہندہ کے روپ میں پیش کیا۔ مجھے اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں کہ عمران خان بھونپو قسم کے سیاستدان ہیں اور نادانی کے سبب غلطیاں کئے جا رہے ہیں۔ آپ چاہیں تو عمران خان کو ڈیماگاگ کہہ سکتے ہیں یعنی ایک ایسا شخص جو صاحب مطالعہ اور سیاسی فراست وتدبر اور بصیرت و دوراندیشی کا حامل تو نہیں ہوتا مگر ایسی مقررانہ صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے کہ پانی میں آگ لگا سکتا ہے۔ اس حوالے سے میرا کالم 26جنوری 2023ء کو اسی ادارتی صفحہ پر شائع ہوا تھا، آپ چاہیں تو اسکا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عمران خان شر اور فتنہ پھیلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے مکروفریب، سیاسی ریشہ دوانیوں اور تخریب کاری و شرپسندی میں اچاریہ رشی کے ہونہار بیٹے وشنو گپت کو مات دیدی ہے۔ ٹیکسلا میں جنم لینے والا وشنو گپت جو کوٹلیہ چانکیہ کے نام سے مشہور ہوا، چندر گپت موریا کے اتالیق کی حیثیت سے ارتھ شاستر جیسی کتاب لکھی۔ اس میدان میں ایک اور بڑا نام برنارڈوڈی کے بیٹے نکولو میکاولی کا ہے۔ اس اطالوی مفکر نے بدنام زمانہ کتاب ’’دی پرنس‘‘ لکھی۔ سولہویں صدی کا یہ بزعم خود دانشور اگر زندہ ہوتا تو نونہالان انقلاب کے کارواں میں شامل ہوکر قیدی نمبر 804کے نعرے لگا رہا ہوتا۔ پاکستان میں روبوٹ ساز صنعت کی تاریخ اُتنی ہی پرانی ہے جتنا خود پاکستان۔ کیا اس سے پہلے راولپنڈی اور آبپارہ کے کارخانوں میں اس طرح کے مصنوعی لیڈر پیدا نہیں کیے جاتے رہے؟ ضرورت پڑنے پر سیاسی ہی نہیں مذہبی قسم کے روبوٹ بھی متعارف کروائے جاتے رہے ہیں لیکن اس بار ایسا شاہکار روبوٹ بنایا گیا کہ اس نے نہ صرف اپنے خالق کیخلاف مصنوعی بغاوت کردی بلکہ جاتے ہوئے وہ سب مہلک ہتھیار بھی اپنے ساتھ لے گیا جس سے مخالفین اور دشمنوں کو زیر کیا جاتا تھا۔ مثلاً کون غدار ہے اور کون محب وطن، یہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار اب اس روبوٹ ساز صنعت کی انتظامیہ کے پاس نہیں رہا۔ سیاستدان بدعنوان ہیں، یہ ملک لوٹ کر کھا گئے، انکا احتساب ہونا چاہئے، یہ نظام گل سڑ چکا، چہرے نہیں نظام بدلو، عام آدمی کو انصاف نہیں مل رہا، ہم امریکہ کے غلام نہیں، حقیقی آزادی حاصل کرنی ہے، نیا پاکستان بنانا ہے، پاکستان کو اللہ نے بیشمار وسائل سے نوازا ہے مگر یہ سیاسی جماعتیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، آپ سب کو اپنے حق کیلئے کھڑا ہونا ہوگا.... اس قسم کے سب دل فریب نعروں پر اب جناب عمران خان کی اجارہ داری ہے۔ مذہب کارڈ بہت خطرناک ہتھیار ہوا کرتا تھا، مگر جب آپ کے ہاتھ میں تسبیح ہو، ریاست مدینہ کی بات کی جارہی ہو، تقریر کا آغاز ایاک نعبدو سے کیا جائے تو پھر کون آپ پر اس طرح کی تہمت لگا سکتا ہے۔ پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کیلئے جو سوشل میڈیا بریگیڈ تیار کیا گیا تھا ،اس میں شامل بیشتر رنگروٹ منحرف ہوگئے ۔قصہ مختصر یہ کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین تعمیری صلاحیتوں کے مالک بیشک نہ ہوں مگر تخریب کاری کے میدان میں انکا کوئی ثانی نہیں۔ وہ فتنہ اور فساد برپا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ لغوی اعتبار سے تو فتنہ ابتلا و آزمائش کو کہا جاتا ہے۔ وہ بھٹی جس میں سونے اور چاندی کو پگھلا کر کثافتوں کو الگ کیا جاتا ہے، اسے بھی فتنہ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ جب سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا مشکل ہو جائے، جب کھرے اور کھوٹے کی پہچان مشکل ہو جائے، جب چور بھی چور چور کے نعرے لگانا شروع کردیں، جب فساد پھیلانے والے خود کو مصلحین کے روپ میں پیش کرنے لگیں، جب ضرورت پڑنے پر یہ ثابت کیا جاسکتا ہو کہ کوا سفید ہے، جب طلاقتِ لسانی کا یہ عالم ہو کہ شعلہ بیاں مقرر کاغذ سے آگ کو ڈھانپ دینے پر قادر ہوں تو سمجھ لیں کہ آپ پرفتن دور میں زندہ ہیں ۔
گزشتہ ماہ حکومت پاکستان نے تمام وزارتوں اور سرکاری محکموں کو خط لکھ کر احکامات جاری کیے تھے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کیلئے فتنہ الخوارج کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ بعض روایات کے مطابق تو خوارج کی ابتدا حضور ﷺ کے دور سے ہی ہوگئی تھی جب ان شرپسندوں کے جد امجد ذوالخویصرہ تمیمی نے پیغمبر اسلام سے گستاخی کی جسارت کی اور اسکے بارے میں سخت وعید فرمائی گئی۔ حضرت عثمان ؓ کے دور میں ان خوارج نے طاقت پکڑی اور پھر حضرت علی ؓ کے زمانے میں انکا عملاً ظہور ہوا۔ اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت علی ؓ کوفہ میں تھے تو یہ منحرف شرپسند انکی فوج سے نکل کرابن وہب کی فوج میں شامل ہوگئے اسی مناسبت سے انہیں خوارج کہا گیا کیونکہ انہوں نے خروج کیا یعنی وہ مرکزی دھارے سے نکل گئے۔ پاکستان تحریک انصاف جو تحریک طالبان پاکستان کا سیاسی ونگ ہے اسکے بارے میں فتنہ یاجوج ماجوج کی اصطلا ح استعمال کی جاسکتی ہے۔ سائرس اعظم جن کا لقب ذوالقرنین تھا، انکے دور میں پہاڑ کے پیچھے ایک ایسی قوم آباد تھی جو کسی قسم کی معاملہ فہمی اور صلح جوئی کی قائل نہ تھی، ان شرپسندوں کو یاجوج ماجوج کا نام دیا گیا اورانہیں روکنے کیلئے ایک دیوار بنائی گئی۔ جس طرح پی ٹی آئی کے شرپسندوں کو اسلام آباد پر دھاوا بولنے سے روکنے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، یاجوج ماجوج کے شر سے بچنے کیلئے بھی ایسے ہی حفاظتی انتظامات کیے جاتے تھے۔