• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کے شہر سانگھڑ اور آثار قدیمہ موئن جو دڑو میں ایک ہی فرق ہے، سانگھڑ کے سخت جان باشندے شہر چھوڑ کرنہیں گئے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے، اس دور کی اس صدی میں اپنے ہی حکمرانوں نے اپنے ہی شہر کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایسا اجڑا ہوا شہر، ایسی تباہ حال آبادی، ایسی ادھڑی ہوئی سڑکیں، نہ کوئی بازار آراستہ، نہ کوئی گلی پختہ، پانی غائب، بجلی لاپتہ۔ خراب سڑکیں بہت دیکھیں لیکن جو حال سانگھڑ کی سڑکوں کا ہے، خدا کسی کو نہ دکھائے۔ میں نے دیکھا کہ سانگھڑ کے بڑے بازار کی سڑک چورا چورا ہو رہی ہے۔ میں نے کسی سے کہا کہ لگتا ہے کئی سال سے مرمت نہیں ہوئی، جواب ملا کہ ابھی چند مہینے ہوئے، نئی سڑک ڈالی گئی تھی، دیکھتے دیکھتے ملبے کاڈھیر بن گئی۔ البتہ شہر میں کسی نامعلوم شخص کا ایک شاندار مکان بن گیا۔ بس وہاں کا یہی معمول ہے، اگر شہر اجڑے تو سمجھئے کسی کا بنگلہ آباد ہوا ہے۔
میں اگر دوبارہ سانگھڑ گیا تو سانگھڑ والوں کی خاطر جاؤں گا۔ پروفیسر محمد مبین وسان، استاد نظامانی، نواز کمبھر جیسے میزبان، مہمان نواز، پرخلوص اور گرمجوشی کا مظاہرہ کرنے والے بھلے لوگ۔ مجھے شہر کے ترقی پسند ادیبوں شاعروں نے بلایا تھا۔ انہوں نے میرے لئے ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔ پتہ چلا کہ شہر میں برسوں بعد کوئی ادبی نشست ہورہی ہے۔ لوگ پڑھے لکھے مہمان کی باتیں اتنی توجہ اور دھیان سے سنتے ہیں کہ کہیں کوئی کام کی بات سننے سے رہ نہ جائے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک الگ تھلگ شہر کے باشندے ہیں لیکن دنیا سے جڑ کر رہنے کی تمنا لئے جی رہے ہیں۔ میں گیا تو پتہ چلا کہ اس شام کی محفل کے قریب قریب سارے ہی شرکاء باقی دنیا سے اپنا رشتہ قائم رکھنے کے لئے بی بی سی سنا کرتے تھے۔ سب ہی مجھ سے واقف تھے، سب ہی کو میرے پیش کئے ہوئے پروگرام یاد تھے۔ ایک صاحب بہت ہی پیار سے بغل گیر ہوئے اور بولے’’میں پہلاج رام (یا شاید رائے) پریمی ہوں‘‘۔ یہ نام سن کر ذہن میں ایک چراغ سا جلا۔ وہ قریبی قصبے جھول سے آئے تھے اور چالیس سال پہلے مجھ سے خط وکتابت کیاکرتے تھے۔ مجھے سب یاد تھا۔ اپنے گھر لے گئے، گھر دکھایا، چھوٹا سا مندر دکھایا، گھر والوں سے ملوایا، بہو بڑا ساگھونگھٹ کاڑھے پکوڑے تل رہی تھی، آخر میں کھانا کھلایا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس روز ہر شخص چاہتا تھا کہ مجھے اپنے گھر لے جائے۔ ممکن ہوتا تو میں چلا بھی جاتا۔ شہر کے نامہ نگار اصرار کر کے مجھے سانگھڑ کے پریس کلب لے گئے۔ یہ عمارت جس شاہراہ پر قائم ہے اس کانام زیب النساء اسٹریٹ ہے۔ جس کسی نے بھی سڑک کا یہ نام رکھا اسے مغل شہزادی سے چڑ ہو گی اور ادھڑی ہوئی سڑک کا یہ نام رکھ کر اس نے مغلوں سے خدا جانے کب بدلہ لیا ہو گا۔ اسی سے نکلتی ہوئی ایک اور سڑک کا نام محمد علی جناح روڈ ہے۔ تباہ حال سڑک کایہ نام رکھنے والے کو تعزیرات پاکستان کی کوئی دفعہ لگا کر ایسی کوٹھڑی میں بھیجنا چاہئے جس کا فرش کوٹ کوٹ کر توڑا گیا ہو اور اس کواسی فرش پر سونے پر مجبور کیا جائے۔
شہر کی انہی گلیوں میں ایک کمال کی شے دیکھی۔ ایک اچھا خاصا چلتا چلاتا،پروگرام نشر کرتا ہوا ریڈیو اسٹیشن۔ آج کل کمیونٹی کے نام پر ایف ایم نشر گاہیں قریب قریب ہر شہر میں کھل گئی ہیں۔ سانگھڑ میں آج کی جدید دنیا کی کوئی نشانی دیکھی تو یہی ریڈیو اسٹیشن تھا۔ اس کے لئے تین چھوٹے چھوٹے کمروں کی اتنی ہی چھوٹی سی عمارت کرائے پر لی گئی تھی۔ ایک کمرے میں ٹرانسمیٹر لگا تھا جس کی خاطر اس کو ایئرکنڈیشنڈ کیا گیا تھا۔ ایک اور کمرے کو اسٹوڈیو بنایا گیا تھا اور خاک سے بچنے کے لئے اس میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارے جاتے تھے۔( مگر میرے اصرار کے باوجود جوتے نہیں اتارنے دیئے گئے)۔ شہر کے نوجوان جدید کمپیوٹر کو یوں چلا رہے تھے جیسے ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔ اس چھوٹے سے اسٹوڈیو میں بیٹھے ہوئے براڈ کاسٹر لطیف حیدر خاصخیلی اتنے ہی چھوٹے سے شہر کے باشندوں سے مخاطب تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی آواز سرحد پار بھارت کے علاقے میں بھی سنی جاتی ہے جہاں سے فون پر فرمائشیں بھی آتی ہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان کی بیگم ان کے پروگرام نہیں سنتیں لیکن جس شام وہ میرا انٹرویو نشر کررہے تھے اس شام بیگم نے اپنے بچوں کوساتھ بٹھا کر میری گفتگو سنی۔ انہیں اندازہ بھی نہ ہوگا کہ اس بات سے میں کتنا سرشار ہوا۔ شہر میں جو دوسرے بے مثال لوگ ملے ان کو کوئی کیسے بھول جائے، ان میں ایک بڑا نام حسن عسکری صاحب کا ہے، فیض احمد فیض اور عابد حسن منٹو صاحب کے ساتھی ہیں اور عوامی ورکر پارٹی کے سرکردہ رہنما ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہاں سانگھڑ میں کیا کر رہے ہیں۔ کہنے لگے کے بہت سے لوگ مجھ سے یہی پوچھتے ہیں۔ وہیں حسن وسان ملے،اپنی دھن میں مگن۔ ان کے پاس بے شمار پرانی فلمیں اور ان کے گانے اور مصوری کے عالمی شاہکار اور خدا جانے کیا کیا جمع ہے۔ کہنے لگے کہ لیجئے، اپنی کتاب ریل کہانی میں آپ نے جس جوگی کا ذکر کیا ہے جورات کے وقت بلند آواز سے گاتا تھا اور اس کی اونچی تانیں سن کر اس کے گرد ایک خلقت جمع ہوجاتی تھی، وہ ایک روز رک کے اسٹیشن پر کھڑا گاڑی کا انتظار کررہا تھا کہ حاسدوں نے اسے گولی ماردی اور اس کی لاش دیر تک پلیٹ فارم پر پڑی رہی، لیجئے اس کی آواز سنئے۔ یہ کہہ کر اس کا ریکارڈ لگادیا۔ میں دنگ رہ گیا۔ وہ بھگت کنورام تھا جو دو نومبر انیس سو انتالیس کومارا گیا تھا۔ اس کے قتل کے بعد رک کا اسٹیشن اجڑ کر رہ گیا۔
سانگھڑ کی ایک اور دلچسپ بات بھی سن لیجئے۔ اس شہر میں کوئی پارک نہیں ہے۔ سبزہ بھی وہیں ہے جہاں مقامی حکام کے دفتر ہیں۔ سرکاری گیسٹ ہاؤس میں پھول کھلے ہیں، حاکم شہر سکندر علی خشک کادفتر تروتازہ ہے۔ وہ خود بھی ملنسار ہیں۔ تھر کے قحط پر کچھ زیادہ شرمسار نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر میں یہ لکھوں کہ جو کوئی سانگھڑ جائے، بہت سوچ سمجھ کرجائے توآپ کوکوئی اعتراض تونہیں ہوگا۔ کہنے لگے کہ ضرور لکھئے ، ہمارے وسائل کم ہیں اس لئے شہر کایہ حال ہوا ہے۔ اب نہیں معلوم کہ وسائل کم ہیں یا ترقیاتی رقم میں کوئی بیٹھا نقب لگارہا ہے۔ اسی نقب کے راستے رقم باہر جارہی ہے اور بدنصیبی اندر آرہی ہے۔ سب جانتے ہیں لیکن چپ رہتے ہیں۔ اسی میں رہزنوں کی جیت ہے۔ میرا بس چلتا تو سانگھڑ میں شیشے جیسی سڑکیں بنواتا،سلیقے سے بازار تعمیر کراتا، ٹھیکے دار کے دبوچے ہوئے حصے سے لوگوں کے گھر بنواتا، گیس اور پانی کے پائپ کا جال بچھواتا، لوگ شام کو زیب النساء اسٹریٹ پر چہل قدمی کیا کرتے، ہرعلاقے میں پارک ہوتے جن میں بچے کھیلا کرتے، ایک دلکش عمارت میں شہر کا کتب خانہ اور دارالمطالعہ ہوتا، ایک ویسی ہی عمارت میں سانگھڑ کا ریڈیو اسٹیشن ہوتا جس میں علاقے کے فنکار گاتے بجاتے اور پڑھے لکھے لوگ علم کی باتیں کیا کرتے۔ میں ایک اور بڑا کام کرتا۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سانگھڑ کا یہ علاقہ انگریزی حاکمیت کے خلاف حروں کی بغاوت کامرکز تھا اور گوری سرکار نے اس تحریک کوبے رحمی سے کچلا تھا، میرے اختیار میں ہوتا توشہر میں ایک عجائب گھر قائم کرتا جس میں علاقے کی تاریخ اور اس کی نشانیاں محفوظ ہوتیں، دنیا بھر کے سیاحوں کو یہاں لاتا اور علاقے میں پھیلی ہوئی درجنوں جھیلوں کانظارہ کراتا اور وہ دیکھتے کہ ادھر سے گزرتے ہوئے کروڑوں پرندے سستانے کے لئے جب بڑی دھج سے ان جھیلوں پر اترتے ہیں توکیسا عجب سماں ہوتا ہے۔اور آخر میں یہ کہ محمد علی جناح روڈ کے ایک کونے پر میرا چھوٹا سامکان ہوتا جس کی کھڑکی میں بیٹھ کرمیں دیکھتا رہتا کہ کسی نے میری جناح روڈ پر جلتا ہوا سگریٹ تونہیں پھینکا۔
تازہ ترین