مڈل ایسٹ میں 07 اکتوبر 2023 سے روا رکھی جانے والی سفاکیت اور خون ریزی کو ایک برس بیت گیا ہے لیکن بربادی کی داستان اختتام پذیر ہوتی نہیں نظر آتی۔ اس ہولوکاسٹ کی پہلی تلخ برسی بشمول پاکستان اور امریکا بہت سے ممالک میں منائی گئی۔ دنیا کا کوئی بھی انسان بلا تمیز مذہب و ملت اور نسل و رنگت انسانی خون ریزی پر دکھی ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ،خون یہودی کا گرے ، مسلمان کا یا کسی ہندو کا، ہمیں اسے مذہبی و فرقہ ورانہ تنگناؤں میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ خون کا سرخ رنگ دنیا بھر کے تمام انسانوں میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے سب کے پیاروں کو دکھ درد بھی ایک جیسا ہی محسوس ہوتا ہے، پاکستان میں مشرقِ وسطیٰ کی خون ریزی کے خلاف اس مرتبہ ایوان صدر میں صدر آصف زرداری کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اپوزیشن پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے سوا تقریباً تمام نمایاں و غیر نمایاں پارٹیوں نے شرکت کی ۔ سب نے اپنے اپنے نقطہ نظر کا کھل کر اظہار کیا ۔مشترکہ اعلامیے میں یہ کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کرواتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر پوری دنیا میں آواز اٹھانی چاہیے، اس سلسلے میں یہ بھی طے پایا کہ پاکستان اپنا ایک ورکنگ گروپ قائم کرئیگا جو پوری دنیا بالخصوص چین اور روس بھی جائےگا بقول وزیراعظم یہ لوگ مختلف ممالک کے دارالحکومتوں میں اس کاز کیلئے جائیں گے محض سیر سپاٹے کیلئے نہیں ۔درویش کی تجویز ہے کہ مڈل ایسٹ پرابلم یا ایشو میں سب سے اہم یا کلیدی کردار عالمی سپر پاور امریکا کا ہے۔ یہ امریکا ہی ہے جو اسرائیل اور تمام عرب ممالک پر سب سے بڑھ کر اثر انداز ہو سکتا ہے جہاں تک روس اور چین کا معاملہ ہے وہ تو پہلے ہی متذکرہ بالا مقاصد کیلئے تعاون کر رہے ہیں ،جنگ بندی کی جب بھی بات آتی ہے تو یہ امریکا ہی ہے جو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ایسی تمام قراردادوں کو ہمیشہ ویٹو کر دیتا ہے۔ ہمارا یہ سفارتی گروپ کہیں اور جانے کی بجائے امریکاجائے اور امریکی قیادت کے کان کھولے کہ اپنے لاڈلے اسرائیل کوسمجھاؤ کہ مانا 07 اکتوبر کو حماس کا اسرائیل پر حملہ بھی درست نہ تھا لیکن یہ بھی سراسرغلط ہےکہ رد عمل میں اسرائیل نے غزہ کا تورا بورا بنادیا، ہزاروں بے گناہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بالخصوص بچے اور خواتین، آخر ان بیچاروں کا کیا قصور تھا؟ صورتحال کی یہ سنگینی غزہ سے آگے بڑھتے ہوئے لبنان تک پھیل چکی ہے اس ناروا تباہی کو نہ روکا گیا تو خدشہ ہے کہ حالات تیسری عالمی جنگ کی طرف نہ چلے جائیں کیونکہ حال ہی میں ایران نے اسرائیل پر جو 180 کے قریب میزائل داغے ہیں اگرچہ آئرن ڈوم کی جدید ٹیکنالوجی نے اسرائیل کا کوئی جانی نقصان نہیں ہونے دیا لیکن اگر جوابی سلسلہ مزید آگے بڑھا تو سوائے تباہی و بربادی کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئےگا۔غلطی کے رد عمل میں بھی ایک توازن پیش نظر رہنا چاہیے ، اگر حماس کی قیادت نے کوئی نامناسب قدم اٹھایا تھا تو اسکی سزا عام عوام کو نہیں ملنی چاہیے۔ ہماری حالیہ متذکرہ بالا آل پارٹی کانفرنس میں اگرچہ صدر مملکت نے پاکستان کا روایتی موقف پیش کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے جو کہ یو این اور او آئی سی کا بھی موقف ہے لیکن کچھ مذہبی جماعتوں نے اس سےاختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو ریاستی حل کا مطلب تو بلاواسطہ طور پر یہ ہوا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے جبکہ حماس کا نعرہ ہےکہ ’’فرام ریور ٹو سی فلسطین فری‘‘ اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب دو ریاستی حل کو مسترد کر دیا جائے، اس سلسلے میں یو این کی قراردادیں کیا کہتی ہیں اور او آئی سی کا موقف کیا ہے،ہمیں ادھر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے ،ہمیں 1940 کی قرارداد لاہور اور جناح کے بیانات کو بنیاد بنانا چاہیے جن میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اس کانفرنس میں سب سے خوبصورت تجویز باچا خان کے پڑپوتے ایمل ولی خان نے پیش کی کہ پاکستان اور افغانستان میں لڑنے والے تمام جہادیوں کو اپنا شوق پورا کرنےکیلئے اسرائیل بھجوا دیا جائے یہاں اس امر پر بھی تنقید ہوئی کہ پی ٹی آئی کانفرنس میں کیوں شریک نہیں ہوئی حالانکہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا یہ جمہوری حق ہے کہ وہ اپنی پالیسی کے مطابق کوئی بھی فیصلہ کرے اس پر یہودی ایجنٹ جیسے سنگین الزامات روا نہیں ۔درویش کی گزارش ہے کہ مڈل ایسٹ پر سخت گیر موقف اپنانے والوںکو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزراجب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو’’ ابراہیم اکارڈ ‘‘کے تحت باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا تھا اور جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ کسی طرح بھی سعودی عرب کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھااور بالفرض اگر کل کلاں سعودی عرب نےبھی اسی ابراہیمی اکارڈ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو ہمارے یہ احباب کہاں کھڑے ہوں گے؟ یاد رہے کہ سعودی عرب ہمیشہ سے ہماری خارجہ پالیسی کا محور ہے اور آئندہ بھی رہے گا، KSA کی مخالفت کوئی پاکستان مخالف ہی کرےگا ۔ براہ کرم اس بات کو جذباتی تقاریر کرنے والے سمجھ لیں بلند پرواز کو بھی چاہیے کہ جذباتی تقاریر کی بجائے درست حقائق کی مطابقت میں عقل و شعور پر مبنی گفتگو فرمائیں ، معاشی بربادی اور آئی ایم ایف کی خواری میں ملک و قوم کیلئے یہی بہتر ہوگا ،ہمارا ملک اردوان یا خامنہ ای جیسےدعووں کا متحمل نہیں ہو سکتا یہاں چینیوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے جس طرح مارا جا رہا ہے حکومت کو پہلے اس کی فکر ہونی چاہیے۔