تفہیم المسائل
سوال: ہماری مسجد کے امام صاحب ہر نماز میں مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کے لیے مختلف طریقوں سے رقم عطیہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں ، کسی کی شادی کے لیے ، کسی کے گھر میں کھانے کے لیے نہیں ہے ، کسی کے بچوں کی فیس ادا کرنے کے لیے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ، ہر عیدالاضحی پر گائے اور بکروں کے حصوں کا مسجد میں اعلان کرتے ہیں ، کیا یہ طریقہ درست ہے ؟،( محمد اختر، کراچی)
جواب: جن امور میں معیّن طور پر کسی فرد کے مالی معاملات کا مفاد ہو، اُن کا اعلان مسجد میں کرنا جائز نہیں ہے ، البتہ بحیثیتِ مجموعی وہ مفادِ عامّہ کا مسئلہ ہو، تو اُن امور کی بابت اعلانات جائز ہیں، مسجد میں ذاتی اورمالی مفادکے اعلانات جائز نہیں ہیں، حدیث پاک میں ہے: (۱)’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی شخص کو (بلند آواز سے) مسجد میں کسی گمشدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے ،تو کہے: اللہ کرے تیری چیز نہ ملے ،کیونکہ مسجدیں اس لیے نہیں بنائی گئیں، (صحیح مسلم: 568)‘‘۔ (۲) ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی شخص کو مسجد میں خرید وفروخت کرتے دیکھو تو کہو: اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی شخص کو مسجد میں اپنی گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے دیکھو تو کہو: اللہ تمہاری چیز واپس نہ لوٹائے ، (سنن ترمذی:1321) ‘‘ ۔ (۳)’’حضرت بُرَیدَہ نے ایک شخص کو مسجد میں گم شدہ چیز کا یہ اعلان کرتے ہوئے سنا:کوئی ہے جو سرخ اونٹ کے بارے میں بتائے، تو نبی ﷺ نے فرمایا:تو اُسے نہ پائے، کیونکہ مساجد اپنے مقاصد کے لیے بنائی گئی ہیں، (ذاتی مقاصد کے لیے اُن کی تعمیر نہیں ہوئی)، (صحیح مسلم: 569) ‘‘ ۔علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ہمارے بعض مشایخ فرماتے ہیں : مسجد میں وہ افعال ممنوع ہیں ،جو کسی شخص کے ذاتی فائدے کے لیے ہو اور وہ اس سے کمائی حاصل کرے، پس مسجد کو تجارت گاہ نہ بنایا جائے، (شرح النووی ، جلد5،ص:55)‘‘۔
مساجد کاماحول پرسکون اور نماز ، تلاوت ، اذکار وتسبیحات ودرود اور وعظ و تذکیر اورمجالس دروسِ قرآن وحدیث اورفقہ کے لیے سازگار ہوناچاہیے۔ ضرورت مندوں کی امداد کے لیے فلاحی اور رفاہی ادارے موجود ہیں ، جہاں ان کی مالی یا طبی امداد کی جاتی ہے ، طلبہ کے لیے اسکالر شپ یا فیسوں کی ادائی کا انتظام کیا جاتا ہے، ان کاموں کے لیے مسجد کو استعمال نہ کیاجائے اور ہر نماز میں اس طرح کے اعلانات کرنا منصبِ امامت کے شایانِ شان نہیں، لوگوں میں بدگمانی پیدا ہوسکتی ہے کہ اس میں ان کا کوئی حصہ مقرر ہوگا، ایک روایت میں ہے: ترجمہ: ایسے مواقع سے بچو ، جن میں مبتلا ہونے سے لوگوں کی تہمت یا بدگمانی کا ہدف بنو۔اِس پر بحث کرتے ہوئے علامہ اسماعیل بن محمدالعجلونی الجراحی نے لکھا ہے کہ: اگرچہ’’اِتَّقُوْا مَوَاضِعَ التُّہْمَۃ‘‘،کی روایت لفظاً ثابت نہیں ہے، لیکن معنًا ثابت ہے۔
اس کا ذکر احیاء العلوم میں آیاہے اور عراقی نے اپنی احادیث کی تخریج میں کہاہے کہ میں نے اس کی کوئی اصل نہیں پائی ،لیکن یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کے ہم معنی ہے(یعنی اثرِ صحابی ہے): ترجمہ:جو بد گمانیوں کی راہوں پر چلے گا، وہ تہمت کا ہدف بنے گا اور مکارم ِ اخلاق میں ’’خرائطی‘‘ نے ان الفاظ کے ساتھ مرفوعاً روایت کیا کہ ’’جو مقامِ تہمت پر ٹھہرا، تو پھر اسے چاہیے کہ بدگمانی کرنے والوں کو ملامت نہ کرے ( بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرے کہ اس نے خود انہیں موقع فراہم کیا) ،(کشف الخفاء ومزیل الالباس ،الجزء الاوّل ،صفحہ 44 ، دمشق) ‘‘۔
اعلانات کی جن صورتوں کا آپ نے سوال میں ذکر کیاہے ، وہ سب شخصی نوعیت کی ہیں اور عمومی طور پر ان کی ممانعت ہے ، البتہ رسول اللہ ﷺنے اُمّت وملت کے اجتماعی مفاد کے لیے مسجد نبوی میں اعلانات کیے ہیں، مثلاً : ’’جنگ کی تیاری اور مجاہدین کی اعانت کے لیے ‘‘ ، اسی طرح کسی خاص موقع پر ایک مسافر کے لیے طعام کی بھی آپ نے اپیل کی ہے ، مگر وہ مشکل دور تھا ، البتہ اب بعض برادریوں کی مساجد میں جنازے کا بھی اعلان کیاجاتا ہے ،1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ہم نے دیکھا تھاکہ کرفیو وغیرہ کا اعلان کیاجاتا تھاکہ لوگ گھر سے باہر روشنی نہ کریں تاکہ دشمن کے طیارے ہدف نہ بناسکیں ، کیونکہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ تھا۔
باقی عام حالات میں مساجد کو اعلانات کے لیے استعمال نہ کیاجائے ،کیونکہ پھر اور لوگ بھی آکر اس کا مطالبہ کریں گے اور امام صاحب کوبھی اجتناب کرنا چاہیے ، البتہ خود مسجد کی اپنی ضروریات یا تعمیر وتوسیع وترقی کے لیے جمعہ وعیدین کے اجتماعات میں اعلانات اب عرف بن چکاہے ، یہی صورت حال مدارس کی ہے، لہٰذا یہ جائز ہے، قربانی کی ترغیب دینا اور اس کے احکام بیان کرنا شرعی ضرورت ہے ، کسی خاص جگہ حصہ لینے کی دعوت دینے کے لیے مسجد کا منبر استعمال کرنا مناسب نہیں، آج کل تشہیر کے اور بہت سے طریقے رائج ہیں، انھیں اختیار کرنا بہتر ہے ۔( واللہ اعلم بالصواب)
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
tafheem@janggroup.com.pk