• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی رفیق احمد بالاکوٹی

أمّ المدارس دار العلوم دیو بند سے یوں تو بے شمار صاحبان علم اور تشنگان علوم کو افادے و استفادے کا تعلق نصیب رہا، جسے اعزاز کہنے میں دورائے نہیں، جبکہ بعض ہستیوں کو اللہ نے ایسی امتیازی شان بخشی کہ وہ دیو بند کی روح و جان بھی کہلائے ، تن من کا استعارہ بھی، اور ان کے بغیر دیو بند کا تذکرہ بلکہ تعارف ہی ادھورا رہ جاتا ہے۔ 

یہی وہ لوگ ہیں، جنہیں دیو بند کا حقیقی ترجمان اور دیوبندیت کی واقعی شان کا رتبہ بلند نصیب رہا۔ اکابر دیوبند ميں سے اس امتیازی شان کی اولین مثال حضرت شیخ الہند اور حضرت شیخ مدنی رحمہم اللہ کے نام آتے ہیں ، حضرت شیخ الہند کے مقابلے میں حضرت مدنی میدان عمل کے مشاغل میں زیادہ گھرے رہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے فیض کو جتنی شہرت و مقبولیت بخشی، وہ شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو۔ 

حضرت مدنی ؒ کی شہرت و مقبولیت کے اسرار کریدنے سے اس کے پانچ عوامل نمایاں محسوس ہوتے ہیں: تعلق مع الله :تواضع و انکساری : تدین و تعبد :عزیمت و استقامت: ذمہ داری اور مسئولیت کی پاس داری۔ آپ کے فیض کی شہرت ، مقبولیت اور عمومیت کے عوامل آپ کے تلامذہ میں بھی بدستور منتقل ہوتے رہے اور آپ کا ہر شاگرد تقریبا اپنے شیخ کا فکری و عملی وارث بھی ثابت ہوا۔

حضرت شیخ مدنی ؒ  کے اس فیض جاری کی ایک زندہ مثال ہمارے حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی ؒ بھی تھے، جنہیں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ سے نشست و برخاست کی سعادت بھی ملی اور صحبت و استفادہ کے کچھ مواقع بھی میسر آئے، غالباً ۱۹۹۶ ء کی بات ہے کہ جامعہ کراچی کی ایک مسجد میں آپ کے برادر کبیر حضرت علامہ عبد الرشید نعمانی ؒ کی ہفتہ واری ایک مجلس منعقد ہوا کرتی تھی، جس میں مختلف موضوعات یا مختلف کتابوں پر تبصرے و تجزیئے کا متلاطم سماں بندھتا تھا، اس مجلس میں مولانا عبد الرشیدنعمانی ؒ کسی بھی موضوع پر جب بات کرتے تو روایات و نصوص کے انبار لگ جاتےتھے۔ 

نیز رجال پر بحث، جرح و تعدیل کے حوالہ جات اور جرح و تعدیل کے متوازن وغیر متوازن معیارات اور رویوں پر بے لاگ گفتگو فرمایا کرتے تھے، اسی مجلس میں حضرت کے برابر میں ایک خاموش طبیعت سفید ریش، پختہ عمر بزرگ، ایک با ادب طالب علم کی طرح سر جھکائے ایک طرف یوں بیٹھے ہوئے تھے، جیسے آپ بھی دیگر شرکاء کی طرح استفادے کے لیے ہی تشریف فرما ہوں، لیکن کبھی کبھی حوالہ جاتی تائید کے لیے شریک بحث بھی ہو جاتے تھے، بالخصوص جب کسی کتاب کے بارے میں موجودگی، عدم موجودگی ، طباعت یا اشاعت کا موضوع آتا تو بڑی ٹھوس اور مضبوط گفتگو کے ذریعے مجلس کے علمی رنگ کو دوبالا کر دیا کرتے تھے۔ 

یہ بزرگ ہمارے حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی ؒ تھے، جن سے ہمارے تعارف یا استفادے کا یہ اولین موقع تھا، اگر چہ وہ اس سے کئی سال قبل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے اشراف کی ذمہ داریاں نباہ رہے تھے، مگر جامعہ کے تعلیمی عرصے میں ایسے مواقع میسر نہیں آئے تھے، پھر جب ۱۹۹۸ ء میں راقم الحروف بھی سفینہ بنوری کے سواروں میں شامل ہوا تو اس کے بعد تعلیمی اور امتحانی امور سے متعلق مجالس اور امتحانات کے موقعوں پر دور کی عقیدت قریب کی نیاز مندی میں بدلنا شروع ہوئی اور آپ کی شخصیت کی قربت کا اضافہ عقیدت میں اضافہ کا ذریعہ ہی بنتا چلا گیا، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کسی بھی بزرگ سے عقیدت کے قیام اور دوام کے لیے جو اسباب وعوامل ہوتے ہیں، وہ آپ کی ذات میں بدرجۂ اتم موجود تھے۔ 

حضرت چشتی صاحب ؒ کی شخصیت میں اپنے شیخ ، حضرت مدنی ؒوالی معصومیت و محبوبیت نمایاں طور پر محسوس ہوتی تھی ، اور اس کے ظاہری اسباب و عوامل بھی تقریباوہی تھے جو حضرت مدنیؒ کے فیض جاری کے طور پر آپ کے شاگردوں میں خون کی طرح سرایت کیے ہوئے تھے۔

مثلاً تعلق مع اللہ کو لے لیجئے۔ کسی مسلمان کے تعلق مع اللہ کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ مسلمان معاصی اور فواحش سے مجتنب رہے اور ہمہ وقت ایسے اعمال سے وابستہ رہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات یا خوشنودی سے متعلق ہوں تعلق کی یہ نوعیت حضرت چشتی صاحب ؒ میں بڑی کمال کے ساتھ موجود تھی ، آپ ہمہ وقت کتاب، مطالعہ اور تحریر و تصنیف میں مصروف رہتے تھے، آپ کا کوئی لمحہ اس عمل سے خالی نہیں تھا، اس کے علاوہ جو وقت بچتا، وہ فرائض کی ادائیگی یا طبعی ضرورتوں کے لیے وقف تھا ، مگر آپ کے طبعی امور بھی سنت کے ایسے قریب تھے کہ وہ بھی حکماً عبادت کے قبیل سے شمار ہیں ، اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی پوری زندگی علم الٰہی یاد الٰہی اور اطاعتِ نبویؐ سے معمور تھی ، یہ طرز زندگی سچ سچ تعلق مع اللہ کہلا سکتا ہے۔

اسی طرح عبادات میں فرائض کی ادائیگی تو شاید ہی کوئی مسلمان ترک کرتا ہو، اسقاط ذمہ کے درجے میں ہر کوئی عبادت الٰہیہ سے جڑا ہوتا ہے، مگر عبادت کو حکم ربانی اور حق عبدیت کے جذبات کے ساتھ ادا کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کو ہی نصیب ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ایسے خاص بندوں کی قابل تقلید مثال حضرت چشتی صاحب ؒ بھی تھے، جو عبادت گزاری میں معمول اور روایت کی ادائیگی سے آگے بڑھ کر خوب اہتمام سے، خشوع و خضوع، سکون و اطمینان کے ساتھ سنن ونوافل پر التزام کی حد تک مداومت فرمایا کرتے اور ہمیشہ نماز با جماعت اور صف اول کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ 

قرآن کریم کی تلاوت اور اذکار و اشغال کو زندگی کا مستقل حصہ بنائے ہوئے تھے، آخری عرصے میں حضرت شاہ نفیس الحسینی ؒ سے اصلاحی و استر شادی تعلق تھا اور ایک طالب سالک کی طرح باقاعدگی سے وہاں حاضر ہوتے اور اذکار و اشغال کا خوب انہماک سے اہتمام فرمایا کرتے ، اس سفر کو مزید قیمتی بنانے کے لیے آتے جاتے ہوئے مختلف کتب خانوں اور علمی شخصیات سے افادے و استفادے کے روابط بھی فرمایا کرتے تھے۔

عزیمت و استقامت کا یہ حال تھا کہ طویل زمانے تک ناظم آباد سے بس کے ذریعے جامعہ تشریف لاتے رہے، کبھی مقررہ وقت سے تاخیر کی نوبت آئی، نہ ہی کبھی ناغہ کیا، بلکہ اکثر و بیشتر مقررہ وقت سے پہلے ہی پہنچنے کی عادت تھی ، جس میں مجھے کبھی فرق محسوس نہیں ہوا، جب کو ئی مجلس مشاورت ہوتی یا امتحان میں حاضری کی ترتیب ہوتی تو قبل از وقت یا عین وقت پر آپ موجود ہوتے اور امتحانی ہال میں بیٹھنے کے بجائے کافی دیر تک چکر لگاتے رہتے تھے، جہاں نگرانی کے عمل کی خوبی پر مستزاد چہل قدمی کا معمول بھی پورا کر لیا کرتے تھے، عمر کے آخری سالوں میں آپ کی رہائش ناظم آباد سے احسن آباد پر ہائی وے کی طرف منتقل ہو گئی تو آپ کی بر وقت حاضری کا معمول اس طویل مسافت سے بھی متاثر نہیں ہوا، حالانکہ شہر کراچی میں ٹریفک کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ 

میری رہائش مجلس دعوت و تحقیق کے راستے میں واقع ہے، آپ کی بلا تصنع بر وقت حاضری میرے ضمیر پر زور دار دستک ثابت ہوتی تھی کہ میلوں دور سے ایک ۸۵، ۸۰ سالہ بزرگ اپنے وقت سے پہلے یا عین وقت پر مدرسہ پہنچ رہا ہے اور میری غفلت و کاہلی مجھے مدرسہ کے گھر سے وقت پر مدرسہ جانے نہیں دے رہی، اللہ کرے یہ احساس اب بھی زندہ رہے۔

حضرت چشتی صاحبؒ تواضع ، عاجزی، انکساری، خاموشی اور گمنامی کی چلتی پھرتی تصویر تھے، ترفع تعلی ، خود نمائی ، خودستائی اور بڑائی سے کوئی واسطہ نہ تھا، خاموشی سے آتے، گوشہ خموشاں میں اپنے کام سے کام رکھتے اور مقررہ وقت پر خاموشی سے اٹھتے اور تشریف لے جاتے، نہ آنے کی دھوم دھام، نہ جاتے ہوئے دھکم پیل ، خمیدہ سر اور پست نگاہوں سے عجز و انکساری کا عملی درس دیتے ہوئے آتے اور چلے جاتے تھے ،کسی قول و فعل یا انداز وادا سے یہ پتا نہیں چلا یا جا سکتا تھا کہ آپ وقت کے محقق و مدقق، جرح و تعدیل کے امام ، رجال کے ماہر اور علوم الحدیث کے یگانہ روزگار ہیں، کوئی نا واقف شخص یہ محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ مقدمہ مرقاۃ المفاتح بنام البضاعۃ المزجاۃ لمن يطالع المرقاۃ شرح المشکاۃ ، مقدمہ سنن ابی داؤد طیالسی، فوائد جامعہ شرح عجالہ نافعہ اسلامی کتب خانے عہد عباسی میں، ( جو اسلامی قلم رو میں اقرأ اور علم بالقلم کے ثقافتی جلوے کے نام سے مشہور ہے ( دو جلدیں) اور سید احمد شہید کی اردو تصانیف واردو ادب پر ان کی تحریک کا اثر اور سید احمد شہید کا فقہی مسلک آپ کے علمی و قلمی شاہکار ہیں۔ سیکڑوں تحقیقی مقالات آپ کے اشراف و اصلاح سے گزر کر علمی دنیا میں روشن اضافہ ثابت ہو چکے ہیں، آپ کے تلامذہ اندرون ملک اور بیرون ملک علمی، تدریسی اور تحقیقی میدان کے مرد میدان بننے کا اعزاز رکھتے ہیں۔

حضرت چشتی صاحب ؒذمہ داری اور مسئولیت کی پاس داری میں بھی اپنے مشائخ کا لائق تقلید نمونہ تھے، ادارے کے نظم کے مطابق جو ذمہ داری اور مسئولیت آپ سے متعلق ہوتی، اسے پورے اہتمام ، خلوص اور ذمہ داری سے نبھاتے، اپنے بڑے پن ، ضعف یا بزرگی کا پروٹوکول نہ کبھی مانگا، نہ جتلایا، اور نہ ہی استثنائی سوچ کو اپنے قریب بھٹکنے دیا، ہمارے علم کے مطابق آپ سے متعلق کوئی بھی ذمہ داری ایسی نہیں ملتی، جس کے لیے آپ نے دوسروں کی خلافت، نیابت اور استعانت کا سہارا لیا ہو، یا اور وں پر انحصار کیا ہو۔ 

آپ کی جامعہ سے وابستگی کے آخری چند سالوں میں آپ کو مخلص معاون کی معاونت میسر آئی، مگر اس سے قبل اپنے متعلقہ جملہ امور خود ہی انجام دیتے رہے، اور معاون کی معاونت کو بھی صرف دفتر تعلیمات سے رابطہ کی خدمات تک محدود رکھا کرتے تھے۔

حضرت چشتی صاحبؒ میں اپنے اکابر کی دیگر خصوصیات کے علاوہ اگر ترک دنیا اور زہد کی خصوصیت کا تذکرہ نہ کیا جائے تو شاید آپ کی احوال بیانی پوری نہ کہلائے ، آپ کی زندگی اکابر کی طرح وسائل اور آسائشوں سے خالی تھی، جو جمع پونچی ہاتھ لگتی تو اس سے کتا ہیں خرید لیا کرتے ، اگر پہلے سے موجود کسی کتاب کا کوئی نیا اچھا ایڈیشن آتا تو اسے بھی حاصل کرنے کی کوشش فرماتے، جسے آپ کی زندگی بھر کا واحد تجارتی عمل قرار دیا جاسکتا ہے، اس طرح انہوں نے اپنی زندگی کی بہترین سرمایہ کاری کرتے ہوئے بقول آپ کے صاحب زادے کے انہوں نے اپنے گھر کی دیواروں کے آگے کتابوں کی ٹھوس دیوار بنا رکھی تھی، یہ کتا بیں صرف جمع کرنے کے شوق کی حد تک نہیں،بلکہ انہیں پڑھنے کا طبعی معمول بھی زندگی کا روگ بنا ہوا تھا۔ 

آپ کی کتابوں میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہوگی جسے آپ نے پڑھا نہ ہو یا آپ کے حواشی و تعلیقات سے خالی رہ گئی ہوں، آخر میں یہ پورا کتب خانہ آپ نے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لیے وقف کر دیا تھا، جبکہ کتب کی خریداری و خواندگی کا روگ مرض مرگ تک ساتھ رہا، اور اپنے ورثاء کو وصیت فرما گئے کہ یہ بعد والی ۳۰۰ کے قریب کتب بھی جامعہ کے گوشۂ چشتی کا حصہ بنادی جائیں، چنانچہ ان کے نیک ورثاء نے آپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے وہ کتا بیں بھی آپ کی یادگار اور صدقۂ جاریہ کے طور پر جامعہ کی ایک نئی وسیع لائبریری کی وسعتوں میں شامل کردیں۔

حضرت چشتی ؒ سے راقم کا ایک منفر د علمی رشتہ بھی قابل فخر یادگار ہے کہ حضرت چشتی صاحبؒ کے ساتھ میرے خاندان کا ایک علمی اشتراک بھی پایا جاتا ہے، وہ یوں کہ میرے ایک بزرگ عالم دین جن سے مجھے نسبتیں حاصل ہیں، وہ میرے والد گرامی کے ماموں زاد بھائی بھی ہیں اور پھوپھی زاد بھی، اور ہمارے پھوپھا بھی ہیں، جبکہ میرے والدصاحب کے استاذ بھی ہیں، اور راقم کو بھی ان سے مقدمہ مسلم وغیرہ کا شرف تلمذ حاصل ہے، علوم الحدیث اور علوم التفسیر ان کا خاص موضوع ہے، وہ پھالیہ منڈی بہاؤالدین گجرات میں مقیم ہیں، وہاں کئی مقلد و غیر مقلدین اہل علم حدیث میں آپ کے شاگرد ہیں، ایچ ایم سعید کا چھپا ہوا سنن ترمذی کا حالیہ نسخہ بھی آپ ہی کا تصحیح یافتہ ہے، جو الحاج نواب محمد ذکی ؒ کی فرمائش پر ان کے گھر میں قیام کے دوران تقریباً ۱۹۷۳ - ۱۹۷۴ء میں آپ نے تصحیح کیا تھا۔ 

غالباً ۱۹۹۴ء کی بات ہے کہ ہمارے ان بزرگ موصوف کے چند غیر مقلد طلباء حديث أقدم المسانيد مسند ابی داؤد طیالسی کا ایک نسخہ بغرض ترجمہ لے کر ان کے پاس آئے اور خالص اردو ترجمہ کی فرمائش پر انہوں نے ترجمہ کر دیا، جسے طباعت کے لیے وہ غیر مقلد حضرات کراچی میں اچھے چھاپہ خانہ کی تلاش میں ادارۃ القرآن لسبیلہ کراچی پہنچے، ادارۃ القرآن والے حضرات نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کرنے کے لیے مقدمہ لکھوانے کا اہتمام کیا اور اس کام کے لیے انہوں نے حضرت چشتی صاحبؒ کا انتخاب فرمایا، حضرت چشتی صاحب ؒ نے مسند ابی داؤ دطیالسی کا ایسا مقدمہ لکھا جس میں علوم الحدیث کے جامع تعارف، تدوین حدیث، مسند ابی داؤد طیالسی کا تعارف اور حنفیت و علم حدیث کے باہمی تعلق وربط کے شاہ کار فوائد کے انبار لگا دیئے۔ 

یہ مقدمہ کتاب کے شایان شان تھا، موضوع کی مناسبت اور تعارف کے لیے ناگزیر بھی تھا، ایک غیر متدوال کتاب کی عظیم خدمت بھی تھی ،مگر یہ مقدمہ کتاب چھپوانے والے حضرات کے مفید طلب شاید نہ تھا، اس لیے وہ حضرات اس کتاب کو پذیرائی کیا دیتے، اس کے وہ نسخے بھی ہمارے بزرگوں تک نہیں پہنچ پائے جن کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن ہمارا حقیقی معاہدہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا، اس سے امید اور دعا ہے کہ وہ حدیث کی اس خدمت کو ہمارے عم بزرگوار حضرت مولانا ابو احمد محمد دل پذیر صاحب دامت برکاتہم کے لیے اور ان کے واسطے سے پورے خاندان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور ان کی اس خدمت کو وقیع علمی مقدمہ کے ذریعہ چار چاند لگانے والے ہمارے حضرت چشتی صاحب نور اللہ مرقدہ کی مقبول حسنات میں شمار فرمائے اور ہمارے ان علمی مراسم کو ہماری نسلوں میں زندہ رکھے۔( آمین)