ڈاکٹر نعمان نعیم
حسب نسب اور ذات برادری اونچ نیچ زمانہٴ جاہلیت کی اور اہل ہنود کی دین ہے۔ اسلام نے آکر اخوت ومساوات کا سبق سکھایا اور یہ بتایا کہ سب ہی انسان حضرت آدم ؑ کی اولاد سے ہیں، عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں، البتہ جو شخص متقی ہے اسی کو اللہ کے نزدیک برتری حاصل ہے۔ کوئی ایمان والا چھوٹا نہیں خواہ وہ کسی برادری سے تعلق رکھتا ہو، اگر کوئی عرف میں چھوٹی ذات سے تعلق رکھتا ہو لیکن وہ قرآن وحدیث وفقہ کا بہت بڑا عالم اور عالم باعمل ہے تو علم کی وجہ سے اس کا مقام سب سے زیادہ بڑا ہے۔
نکاح میں کفائت کا اعتبار محض اس لیے ہے کہ دونوں میاں بیوی میں خوش گوار زندگی گزرے۔ ورنہ لڑکی کا باپ اپنی لڑکی کا نکاح جس برادری میں چاہے کرسکتا ہے۔ ہر مسلمان کا نکاح دوسرے مسلمان کے ساتھ دُرست ہے۔ صحابہٴ کرامؓ اور تابعینؒ میں ایک برادری کا نکاح دوسری برادری کے ساتھ ہوتے رہے، تاریخ وسیرت میں اس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مختلف خاندان اور قبیلے تعارف کے لیے بنائے ہیں، اونچ نیچ ظاہر کرنے اور تفاخر کے لیے نہیں ۔ اسلام نے آکر جاہلیت کی نخوت وتکبر وتفاخر کو دور کردیا ہے۔ ہمیں بھی اسے دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے محض رنگ ونسل اور طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر کسی انسان کو اعلیٰ اور گھٹیا سمجھنا گوارانہیں کیا جاسکتا۔ نیز اسلام کی نظر میں سارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں، اِنَّمَا الْمُومِنُوْنَ اِخْوَةٌ (سورہ ٔحجرات ۱۰) لہٰذا یہ اخوت باہمی اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی کو ذات برادری کی بنیاد پر حقیر سمجھ کر اور نسب ونسل اور زبان پر تفاخر کر کے باہمی اخوت میں اونچ نیچ کی دیوار حائل نہ کی جائے۔ لیکن زندگی کے ہر شعبوں میں کیا آج کا مسلمان اخوت باہمی کے اس زریں اور اسلامی اصول پر کار بند رہتا ہے یا اس کے قدم ڈگمگاتے اور پاؤ ں پھسل جاتے ہیں، تو مشاہدہ یہ ہے کہ بعض مواقع ایسے ہوا کرتے ہیں جہاں دھڑلے سے اس اصول کی پامالی ہوتی ہے۔
ان میں ایک موقع شادی بیاہ کا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں اچھے اچھے لوگ بھی ”انّما المومنون اخوۃ“ کے پیغام کو بھلا دیتے ہیں اور صرف اپنے ہی نسب ونسل اور برادری کو فوقیت اور ترجیح دیتے ہیں اور اس کے علاوہ سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے، کیا وہ رواج کے تابع ہو کر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی شان وشوکت اور فخر و غرور اور کبر ونخوت کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ وجوہات ان کے خیالات کی محرک ہوسکتی ہیں۔
بعض برادریاں تو واقعتاً ایسی ہوتی ہیں کہ بلاوجہ اپنی دولت وثروت کو شان وشوکت اور عزت وشرف کا ذریعہ سمجھ کر فخر وغرور کی زد میں آجاتی ہیں۔ ان کی یہ سوچ اسلامی نظریہ کے خلاف ہے۔ اسلام نے کسی بھی صورت میں اِس بات کو قبول نہیں کیا کہ کوئی اپنے کو باعزت اور دوسروں کو ذلیل وحقیر اور گھٹیا سمجھے۔
دوسرے یہ کہ شریعت میں ان کے نظریے کی تا ئید ہو رہی ہو، اسی لیے وہ اس پر مضبوطی سے کا ربند رہتے ہیں۔ ہاں، شریعت نے شادی بیاہ کے موقع پر آپس میں مماثلت، یگانگت، برابری اور کفائت کا اعتبار کیا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان فکر وخیال، معاشرت، طرز رہائش اور دین داری وغیرہ میں یکسانیت یا قربت ہونے کی صورت میں اس کی زیادہ امید ہوتی ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے اور رشتہٴ نکاح مستحکم ہو۔ بے جوڑ نکاح عموما ًناکام رہتے ہیں اور اس ناکامی کے برے اثرات ان دونوں کے گھروں اور خاندانوں تک پہنچتے ہیں، اس لیے احکام نکاح میں شریعت نے کفائت کی رعایت کی ہے۔
احناف کے نزدیک نکاح میں کفائت کا اعتبار نسب، نسل، اسلام، آزادی، مال ودولت، دیانت اور پیشہ میں ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری ج ۱/ ص۲۹۰) یعنی زوجین کے درمیان ذات برادری، دین داری، مال داری، آزادی اور پیشہ وغیرہ میں یکسانیت ہونی چاہیے،تاکہ نکاح کا مقصد پورا ہوسکے۔ اللہ کے نبی ﷺنے ارشاد فرمایا :گویا ذات برادری میں بھی برابری کا اعتبار شریعت نے کیا ہے۔
یہ اور بات ہے کہ مذکورہ حدیث یا اس طرح کی اور حدیثوں کو علما ء نے عرب میں کفائت فی النسب کے ساتھ خاص کر دیا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ عجمیوں نے اپنا نسب ضائع کر دیا ہے، اس لیے کفائت فی النسب کا اعتبار ان میں نہیں ہوگا، عجمی سب کے سب برابر ہیں، ان میں ذات برادری کو ئی چیز نہیں۔
بعض فقہاء نے اس طور پر استثنا کیا ہے کہ اگر کوئی عجمی واقعتاً ثابت النسب ہو اور انھوں نے اپنا نسب برقرار رکھا ہو تو پھر ان میں بھی کفائت فی النسب کا اعتبار ہوگا۔ (درمختارمع الشامی باب الکفاء ة) تاہم عرف وعادات پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ عجمیوں میں بھی بحیثیت عرف کفائت فی النسب کے معتبر ہونے میں کوئی دورائے نہیں ہونی چاہیے۔
زندگی کے بہت سے ایسے مسا ئل ہیں جن میں عرف پر عمل ہوا کرتا ہے۔ جس ملک، جس ریاست اور علاقہ و بستی کا جیسا عرف ہوتا ہے مسلمانوں کو درپیش بعض مسائل میں وہاں کے عرف کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ وہ عرف شریعت کی نص یا مقصد ومصلحتِ معتبرہ سے نہ ٹکرائے، ورنہ فاسد قرار پائے گا، جیسے مروجہ جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ کرنا، لڑکیوں کو میراث سے محروم رکھنا، گروی زمین وغیرہ سے فائدہ اٹھانا، ایسے رواج کا اعتبار نہیں، یہ فاسد کہلائیں گے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲﷺ نے فرمایا: تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں‘‘۔حجۃ الوادع کے موقع پر سرورِکائناتﷺ فرمایا:’’لوگو! سن لو، تمہارا رب ایک ہے ،کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی سرخ کو کالے اور کسی کالے کو سرخ پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ بے شک تم میں اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔ سنو! کیا میں نے تمہیں بات پہنچا دی؟ لوگوں نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! جی ہاں! فرمایا تو جو آدمی یہاں موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں‘‘۔(بيہقی، شعب الايمان)
ارشادِ ربانی ہے’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شکخ ﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو‘‘۔(سورۃالحجرات)
محدثین و مفسرین نے اس آیت مبارکہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے :’’رسول اکرم ﷺ نے بنو بیاضہ کو حکم دیا کہ وہ ابو الہند کے ساتھ اپنی ایک عورت کی شادی کر دیں۔ انہوں نے کہا: کیا ہم اپنی بیٹیوں کا نکاح غلاموں سے کردیں ؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابو الہند حضور اکرم ﷺ کا فصد لگانے والا غلام تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک آزاد عورت کا نکاح ایک غلام سے کر کے نسب و حسب اور صنعت و حرفت کے سارے بت توڑ دیئے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ عورت سے چار چیزوں کے باعث نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال، اس کے حسب و نسب، اس کے حسن و جمال اور اس کے دین کی وجہ سے تیرے ہاتھ گرد آلودہ ہوں، تو دین دار کو حاصل کر‘‘۔(صحیح بخاری)
حضرت ابوامامہؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ مومن اللہ کے تقویٰ کے بعد جو اپنے لیے بہتر تلاش کرے، وہ نیک بیوی ہے کہ اگروہ اسے حکم دے تو اطاعت کرے، اس کی جانب دیکھے تو خوش ہو، اگر وہ کسی بات کے کرنے پر قسم کھا لے تو اسے پوری کر دے۔ اگر شوہر کہیں چلا جائے تو اس کی غیر موجودگی میں اپنی جان و مال کی نگہبانی کرے‘‘۔(سنن ابن ماجہ)
جب تمہارے پاس ایسے شخص کے نکاح کا پیغام آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے نکاح کردو خواہ وہ کوئی بھی شخص ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت زیادہ فساد اور فتنہ پھیلے گا۔‘‘حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:’’جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہو گا۔(جامع ترمذی)
امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں:’’حکم بن غینہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے حضرت بلال ؓ کو ایک انصاری کے گھر بھیجا، تاکہ وہ اپنے رشتے کا پیغام دیں۔ اس انصاری کے گھر والوں نے کہا کہ حضرت بلال ؓ نے کہاکہ اگر حضور اکرم ﷺ نے مجھے تمہارے پاس آنے کے لئے نہ کہا ہوتا تو میں کبھی نہ آتا۔ انہوں نے کہا، رسول اللہﷺ نے تمہیں حکم دیا ہے۔
حضرت بلال ؓ نے کہا، ہاں۔ انہوں نے کہا ،تم اس رشتے کے مالک ہو۔ حضرت بلال ؓ نے جاکر نبی اکرم ﷺ کو خبر دی، اس وقت آپﷺ کے پاس سونے کا ٹکڑا آیا۔ آپ ﷺ نے وہ حضرت بلالؓ کو عطا کیا کہ یہ اپنی بیوی کے پاس لے جانا اور حضرت بلال ؓ کے دوستوں سے فرمایا تم اپنے بھائی کے ولیمے کی تیاری کرو‘‘۔
مندرجہ بالا حدیث حضور اکرم ﷺ نے ایک آزاد عورت کا نکاح ایک غلام کے ساتھ کر کے ہر قسم کے تفاوت کو ختم کر دیا اور بتا دیا کہ اصل چیز مسلمان ہونا ہے، باقی چیزیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے، جس کی رو سے بعض قومیں اعلیٰ اور بعض ادنیٰ سمجھی جاتی تھیں اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن کریم نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں، ان کی بناء پر نہ کوئی اعلیٰ ہوتا ہے، نہ ادنیٰ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا ،تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک، ﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو‘‘۔(سورۃ الحجرات)
اسلام کی نظر میں عزت و ذلت بڑا اور چھوٹا ہونے کا دار و مدار ایمان و کردار پر ہے حسب و نسب پر نہیں۔ ذات، قوم، قبیلہ صرف تعارف یعنی باہمی جان پہچان کا ذریعہ ہے۔ کسی ذات برادری سے ہونا نہ تو عزت و عظمت کی سند ہے۔ نہ کسی دوسرے قبیلے میں جنم لینا ذلت و حقارت کی علامت۔
تمام مسلمانوں کے ذہن ودماغ میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ حسب و نسب، ذات وبرادری اونچ نیچ زمانہ جاہلیت کا نظام ہے۔ اسلام نے آکر اخوت ومساوات کا سبق سکھایا اور یہ بتایا کہ سب ہی انسان حضرت آدم کی اولاد سے ہیں، کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں، البتہ جو شخص متقی ہے اسی کو اللہ کے نزدیک برتری حاصل ہے۔
نکاح میں کفائت کا اعتبار محض اس لیے ہے کہ دونوں میاں بیوی میں خوش گوار زندگی گزرے۔ ورنہ لڑکی کا باپ اپنی لڑکی کا نکاح جس برادری میں چاہے کرسکتا ہے۔ ہر مسلمان کا نکاح دوسرے مسلمان کے ساتھ درست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف خاندان اور قبیلے تعارف کے لیے بنائے ہیں، اونچ نیچ ظاہر کرنے اور تفاخر کے لیے نہیں۔ جہاں تک ممکن ہو ہمیں اس تصور کو ختم کرنا چاہیے اور مساواتِ اسلامی پر قائم رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ اسلام نے آکر جاہلیت کی نخوت وتکبر وتفاخر کو دور کردیا ہے۔ ہمیں بھی اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مسلمانوں میں ذات پات کا تصور اور اس پر فخرو تکبر کی بنیادی وجوہات میں جہالت اور اس معاشرہ سے متاثر ہوناہے ۔ علم سے دوری، شریعت سے نا واقفیت کی بنیاد پر یہاں کے مسلمانوں میں یہ لعنت پائی جاتی ہے، اکثریتی سماج کے اونچ نیچ کے نظام نے مسلمانوں کو بھی متاثر کیاہے اور اسی وجہ سے یہ بیماری مسلمانوں میں موجود ہے جس کے خلاف منظم مہم چلانا وقت کی ضرورت ہے اور زندگی کے تمام شعبوں سے غیر ضروری فخروغرور کو ختم کرکے اخو ت وبھائی چارہ اور مساوات پر عمل پیرا ہونے میں ہی ہماری کامیابی ہے اور یہی اسلامی تعلیمات ہیں۔