الامین اکیڈمی میں ملک محبوب الرسول قادری کےاعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔وہ انوار رضا کے چیف ایڈیٹر ہیں اور ان دنوں انہوں نے انوار رضا کا ختم نبوت کے حوالے سے ایک خاص ایڈیشن شائع کیا ہے جو اپنے موضوع پربڑی اہمیت کا حامل ہے۔ تقریب کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مفتی راغب حسین نعیمی نے کی ۔وہاں سجاد میر کی گفتگو بھی میرے لئے چونکا دینے والی تھی ۔نواز کھرل نے اسٹیج سیکرٹر ی کےفرائض سرانجام دئیے۔ضیاالحق نقشبندی اکثر تقاریب کراتے رہتے ہیں مگر یہ تقریب ایک اعتبار سے بالکل مختلف تھی کہ اکثر مقررین نےمفتی راغب حسین نعیمی کو مشورہ دئیے کہ وہ اپنے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل کے تحت اسلامی حکومت کے سارے خدوخال واضح کریں کہ نظام ِ مصطفیٰ صرف نعروں کی حد تک محدود نہ رہے ۔ سہیل وڑائچ نے بھی اپنے کالم ’’ڈاکٹرنائیک یا علامہ اقبال ‘‘ تقریبا یہی بات کی ہے کہ اس امت مسلمہ کامسئلہ کیا ہے اور ہم کن معاملات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ۔مجھے چند سال پہلے کی ایک بات یاد آرہی ہے ۔یہ برطانیہ کاایک خوشگوار دن تھا ، بادلوں کے ساتھ ساتھ دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی ،کہیں ہلکی ہلکی بارش شروع ہو جاتی تھی اور کہیں بادلوں میں دھوپ کی پیوند کاری رنگ بکھیرنے لگتی تھی ،قوس ِ قزح ہمارے ساتھ بنتی اور بگڑتی جا رہی تھی ڈاکٹر افتخار احمد اور میں مانچسٹرسے واپس برمنگھم آنے کیلئے ایم سکس پر سفر کر رہے تھے ۔ہمارا موضوع عجیب و غریب سا تھا ہم دونوں یہ سوچتے تھے کہ دنیا جس موٹر وے پر بھاگ رہی ہے اس کے آگے ایک خوفناک خلیج ہے کسی وقت بھی کوئی قیامت خیز واقعہ رونما ہو سکتا ہے ۔اشتراکیت ناکام ہوکرسائبریا کے برف زاروں میں دفن ہوچکی تھی اور سرمایہ دارانہ عفریت نے انسانیت کا بند بند مضمحل کررکھاہے،کیا دنیا کو کوئی نظام نہیں دیا جا سکتا ، اسے دوڑنے کےلئے ایسا راستہ ایسا موٹر وے فراہم نہیں کیاجاسکتاجو اسے روشنی اور خوشبو کی وادی میں لے جائے ۔ وہ راستہ وہ پھولوں بھری وادی ہمارے پاس ہے ، مگرکسی کو دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ہم نے اس کا جغرافیہ دنیا سے چھپا کر رکھا ہوا ہے ، ہم کہتے ہیں کہ اسلامی نظام انسانیت کیلئے نجات کا واحد راستہ ہے مگر چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک کہیں کسی کتاب میں ایک مکمل نظام حکومت کے طور پر سامنے نہیں لایا گیااس بات کاشور تو مسجد و ں کے مینار سے لے کر قومی اسمبلی کی دیواروں تک ہر طرف سنائی دیتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،مگر کیسے۔یہ آج تک کسی نےنہیں بتایاکہ اسلام کا طرز حکمرانی کیا ہے ،اسلام کیسی جمہوریت کا علمبردار ہے اور موجودہ عہد میں اس کی شکل و صورت کیسی ہو سکتی ہے ۔کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ قرآن و سنت کوسلطنت ِزمین کا آئین تسلیم کرنے والی حکومت اس جسم کی مثال ہے جس کے ایک بازو کا نام مجلس شوری اور دوسرے بازو کا نام عدلیہ ہے ۔اسلام کے معاشی نظام پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگرہم نے اسے بھی قرآن حکیم کی طرح کسی متبرک غلاف میں لپیٹ کر رکھا ہوا ہے ، کبھی لوگوں کو نہیں بتایا گیا کہ اسلامی کا معاشی نظام کیا ہے اور وہ آج کی جدید تر دنیا میں کیسے قابل عمل ہو گااور بین الاقوامی معاشی نظام سے کس طرح مربوط ہو سکے گا،اسلامی تعزیرات پر بھی بہت سے کتابیں موجود ہیں مگر لمحہ ء موجود میں انہیں کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے اس پر کسی نے بحث نہیں کی،حتی کہ لوگوں کو تعزیر اور حد کی تفریق تک نہیں بتائی گئی ،صرف کوڑوں سے ڈرایا گیا کہ کہیں لوگ اسلامی نظام کے قریب نہ آجائیں اسلامی حکومت کے ادارے کیسے ہوتے ہیں اس بارے میں کہیں کچھ نہیں لکھا گیا اسلام میں فوج کی حیثیت کیا ہے اس پر کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کےکارناموں پر ہی کتابیں لکھی گئیں، اسلام میں عدلیہ کیسے ورک کرتی ہے کوئی نہیںجانتا ، یہ سب کہتے ہیں کہ اسلام میں جاگیرداری حرام ہے مگرقانون ملکیت پرکبھی کسی نے کھل کربات نہیں کی ۔۔اسلام میں زراعت کا نظام صحت عامہ کا نظام ،تعلیم کا نظام ، آبپاشی کا نظام کیا ہے،اسلامی معاشرہ کیسے تشکیل پاتا ہے اور یہ نظام صرف انہی ممالک میں نفاذ ہو سکتا ہے جہاں مسلمان آباد ہیں یا غیرمسلم بھی اس نظام سے اپنی معاشرت کو خوبصورت بنا سکتے ہیں ۔اور پھر ہم میں طے پایا کہ یہ تمام سوال کسی کتاب کے متقاضی ہیں مگر یہ کتاب لکھے گا کون۔۔۔ اور قرعہ فال میرے نام نکل آیا
میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعہ فال مرے نام کا اکثر نکلا
جب میں نے یہ کام کرنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ کام کوئی آسان نہیں مگر میں یہ سوچ کررکا نہیں کہ اگر میں نے یہ کام نہ کیا تو قیامت کے دن قدوس ذوالجلال کے سامنے مجھے کتنی شرمندگی ہو گی کہ ایک کام جس کے کرنے کی اس نے مجھے صلاحیت بخشی ہے میں نے اپنی سہل طلبی اور کم وقتی کی وجہ اس سے منہ موڑ لیا اور شاعری کی وادیوں میں بھٹکتا رہا۔یقینا یہ کام ڈاکٹر نائیک یا مفتی راغب حسین نعیمی کر سکتے ہیں مگر اس وقت شاید ہی دونوں صاحبان اس طرف متوجہ ہو سکیں ۔ڈاکٹر نائیک کوحکومت نےاس لئے بلایا ہے کہ عوام کو کسی اور طرف متوجہ کیا جا سکےمگر بلانے والوں کوشاید اس بات کا احساس نہیں کہ پاکستان میں رہنے والے ستر75 فیصد مسلمان ڈاکٹر نائیک کے ہم مسلک نہیں اور جہاں مفتی راغب حسین نعیمی کی بات ہے تووہ یہ کام ضرور کر سکتے ہیں۔