ممتاز مذہبی محقق اور مفکر جاوید احمد غامدی کے ساتھ یورپین دارالحکومت برسلز میں ایک شام منائی گئی۔
اس حوالے سے منعقدہ تقریب کے دوران جرمنی، برطانیہ، ناروے اور کئی دیگر ممالک سے مرد و خواتین نے شرکت کی اور اپنے سوالات کے ذریعے ان کے دینی فکر کے متعلق آگاہی حاصل کی۔
یہ پروگرام اپنے آپ میں ایک دینی خطاب نہیں تھا بلکہ شرکائے محفل کے بے تکلف اور تنقیدی سوالات سے آگے بڑھنے والی ایک گفتگو تھی۔ جن پر گفتگو کرتے ہوئے جاوید احمد غامدی نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ قرآن کریم کو ترجمے کے ساتھ خود پڑھیں، اس سے کسی دوسرے کی زبان کی بجائے قدرت کی عطا کردہ فہم کے مطابق خدا کی بات ان تک پہنچے گی۔ اس کے بعد ان کے اندر پیدا ہونے والی تشنگی انہیں علم کے مراجع تک لے جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذرائع کی تبدیلی کے ساتھ ہی ابلاغ کی دنیا بھی تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کی تیز رفتاری کے باعث چیزیں اب اتنی مشکل نہیں رہیں۔
انہوں نے متوجہ کیا کہ لوگ خصوصی طور پر یورپ میں رہنے والے افراد قرآن سے متعلق اسٹڈی سرکل بنائیں اور دینی فکر کو سمجھیں۔ انہوں نے زور دیا کہ مساجد کو فرقہ وارانہ تقسیم کے مرکز کی بجائے مسلمانوں کے ادارے کے طور پر ہی رہنا چاہیے۔
پاکستانی معاشرے کی موجودہ مذہبی ہئیت اختیار کر لینے کے سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست نے مذہب کو باہمی احترام، رواداری میں اضافے اور امن کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا۔
جاوید احمد غامدی نے زور دیا کہ مسلمان قرآن و سنت اور تاریخ کی کتب سے دین اخذ کرنے کے مسائل کے بارے میں غور کریں۔
انہوں نے شرکائے تقریب کو اس بات کیلئے بھی متوجہ کیا کہ مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ قرار دینے سے کن مذہبی اور فکری مغالطوں نے جنم لیا۔
تاہم انہوں نے زور دیا کہ تحقیق کے ہر زاویے کو احترام سے پرکھا اور سنا جائے اور پھر اسے اپنے ضمیر کے اطمینان کے ترازو پر تول کر اختیار کر لیا جائے۔
یورپ میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت پر خوف کے حوالے سے محفل میں شریک ایک نوجوان ماں کے سوال پر انہوں نے باور کرایا کہ پاکستانی سماج بھی اب اتنا محفوظ نہیں رہا جس سے اطمینان کا پہلو نکلتا ہو۔ دوسرا یہ کہ ہدایت کسی خطے میں قیام سے کبھی مشروط نہیں رہی۔
انہوں نے اس کیلئے صحابہ کرام کی مثال دی جو اپنی مضبوط فکر کے ساتھ ہر جگہ پہنچے اور اس معاشرے میں اسلام کے آفاقی اصولوں پر عمل درآمد کے ذریعے اپنی جگہ بنائی۔
انہوں نے تجویز کیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی، اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی قومی زبان سے جوڑیں۔ اگر ان کا تعلق اپنی قومی زبانوں کے ذریعے اپنے خاندان اور سماج سے جڑ گیا تو وہ خود اپنے بہت بڑے علمی ذخیرے تک رسائی حاصل کر لیں گے۔
اپنی گفتگو میں جاوید احمد غامدی نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ اسلام میں بندگی کیلئے خدا کی ذات اور عقیدت کیلئے مرکز کی حیثیت صرف جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام لوگوں سے ہماری الفت و محبت انسانی احترام کے دائرے میں ہی ہوگی۔
انہوں نے شرکائے محفل کو تلقین کی کہ ایک سچے طالب علم کے طور پر وہ دوسروں کے خیالات کو اتنے ہی احترام سے سنیں جتنا احترام وہ اپنی گفتگو کیلئے چاہتے ہیں۔
اس نشست کی میزبانی کے فرائض حسن الیاس نے انجام دیے۔ یاد رہے کہ جاوید احمد غامدی ان دنوں اپنے نجی دورے پر یورپ آئے ہوئے تھے۔