• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میں اپنے محلے کی مسجد میں انتظامیہ کی اجازت سے نمازِ مغرب کے بعد بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتا ہوں ، کیا مسجد میں فیس لے کر پڑھانا جائز ہے ؟،( حافظ محمد جاوید ،کراچی)

جواب: فقہائے کرام نے صرف ضرورت کی بنا پر مسجد میں اجرت لے کر درس و تدریس کی اجازت دی ہے ،بعض فقہاء کے نزدیک گرمی سے بچنے کے لیے ضرورۃً مسجد میں بچوں کو پڑھانا بلاکراہت جائز ہے، اُجرت لے کر مسجد میں پڑھانا مکروہ ہے ،البتہ جگہ کی تنگی یا اس جیسے دوسرے مسائل کے سبب اگر معلم فیس لے کر مسجد میں پڑھاتا ہے ، تو وقتی طور پر دوسرا انتظام نہ ہونے تک اسے اجازت دی جائے گی ،علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’اگر معلم مسجد میں بیٹھ کر تعلیم دیتا ہے اور کاتب مسجد میں بیٹھ کر لکھتا ہے اگر تو معلم ثواب کی نیت سے ایسا کرتا ہے اور کاتب اپنے لیے لکھتا ہے نہ کہ اجرت پر، تو حرج نہیں، کیونکہ یہ قربت وعبادت ہے اور اگر اجرت کے لیے ہے تو بلاضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے، امام سرخسی کی’’ محیط‘‘ میں بھی ایساہی ہے،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد5،ص:321)‘‘۔ 

علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں: ’’ معلم کا بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا اگر تنخواہ کے عوض ہے، تو اسے کاتب پر قیاس کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ یہ جائز نہیں ہے اور اگر خالصاً لوجہ اللہ بلا مشاہرہ پڑھارہا ہے ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،( البحرالرائق ، جلد2،ص:38)‘‘۔ 

شیخ حافظ الدین محمد بن محمد بن شہاب المعروف ابن البزاز الکردی لکھتے ہیں:’’ بچوں کو اجرت پر پڑھانے والا معلم اگر گرمی کی وجہ سے مسجد میں بیٹھ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اسی طرح اجرت کے عوض پڑھانا ضرورت کے سوا مکروہ ہے اور اگر خالصاً لوجہ اللہ پڑھا رہا ہے، تو کوئی حرج نہیں ،(فتاویٰ بزازیہ، جلد1، ص:374)‘‘۔

لوگوں کے عمومی عطیات سے مُدرّس ،امام یا مؤذن کو تنخواہ دی جاتی ہے، وہ اس حکم میں نہیں ہے ،علامہ محمد بن محمد بن محمود بابرتی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اس زمانہ میں تعلیمِ قرآن پر اجرت دینا جائز ہے اور فقہاء نے اس کے لیے مدت اوراجرت کے مقررکرنے کو بھی جائز کہا ہے اور اگر مدت مقررنہ کی گئی ہو تو اجرت مثلی دینے کے وجوب کا فتویٰ دیا ہے‘‘ 

مزید لکھتے ہیں: ’’ مُتقدمین (فقہاء کرام ) نے تعلیمِ قرآن کی اجرت لینے سے اس لیے منع فرمایا تھا کہ پہلے مُعلمین کے لیے بیت المال سے وظائف مقرر تھے، اس لیے مُعلمین اپنی ضروریات اور معاش میں مستغنی تھے، نیز اس زمانہ میں محض ثواب کے لیے قرآن مجید کی تعلیم دینے کاشوق تھا اوراب یہ بات باقی نہیں رہی، امام ابوعبداللہ الخیر اَخرِیّ نے کہا: اس زمانہ میں امام، مؤذن اورمُعلّم کے لیے بھی اجرت لینا جائز ہے ،(العنایہ شرح الہدایہ ، جلد9، ص:98)‘‘۔

علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن محمد فرغانی لکھتے ہیں:’’ ہمارے بعض مشایخ نے اس زمانہ میں تعلیم قرآن کی اجرت دینے کو مستحسن قراردیاہے ، کیونکہ امور دینیہ میں لوگوں پر سستی غالب ہوگئی ہے اور اجرت نہ دینے میں حفظ ِ قرآن کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ،فتویٰ اسی قول پر ہے ، (ہدایہ، جلد9، ص:98)‘‘۔

غرض ہمارے مُتقدمین فقہائے کرام نے بچوں سے یا اُن کے والدین سے تعلیمِ قرآن کی مد میں فیس وصول کرنے والے معلم کے مسجد میں بیٹھ کر تعلیم دینے کو مکروہ قرار دیا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ ایسے معلمین کو بیت المال سے ان کی معاشی ضروریات کے لیے وظائف ملتے تھے اور معاشرے میں خیر کا غلبہ تھا، اس لیے خالصاً لوجہ اللہ بھی لوگوں میں دینی تعلیم دینے اور حاصل کرنے کا شوق تھا ، لیکن اب مرورِ زمانہ سے وہ کیفیت باقی نہیں رہی، اس لیے امام ابو عبداللہ خیر اخری نے کہا: ’’ہمارے زمانے میں امام ومؤذن کے لیے اجرت لینا جائز ہے ‘‘ ، اور بہر حال دینی تعلیم مسلمان کی ایک بنیادی ضرورت بھی ہے ، اس لیے بعض مساجد میں ،جہاں امام ومؤذن کا مشاہرہ کم ہوتا ہے ،انتظامیہ بھی اس کی اجازت دیتی ہے اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کی مساجد اور اسلامک سینٹرز میں بھی یہ شعار عام ہے ، اس لیے اب اس کے جواز کا قول ہی حکمت ِ دین کا تقاضا ہے، تاہم یہ سلسلہ مُتولّیِ مسجد یا مسجد کی انتظامی کمیٹی کی اجازت سے مشروط ہوگا ،کیونکہ وہ اپنے حالات کے پیشِ نظر بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔