اس وقت پوری دنیا میں لگ بھگ چار کروڑ افراد ایچ آئی وی وائرس کے ساتھ جیسے تیسے جی رہے ہیں، ایک نئی تحقیق کے مطابق تجرباتی ایچ آئی وی ویکسین کی مدد سے پہلی بار انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، یہ ویکسین پہلے سے موجود تجرباتی ویکسین کو ملا کر تیار کی گئی ہے جسے تھائی لینڈ میں 16 ہزار افراد پر آزمایا گیا ہے، ان 16 ہزار افراد کا رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات ویکسین بنانے والے ماہرین کو پیش کرنا قابل تعریف و تحسین اقدام ہے کہ اس ویکسین نے ایڈز جیسی بیماری کو پھیلانے والے ایچ آئی وی وائرس کے انفیکشن کے خطرے کو ایک تہائی تک کم کر دیا ہے، اس تحقیق و ریسرچ کو اس سمت میں اب تک کی جانے والی بڑی کامیابی مانا جا رہا ہے جس پر امریکی فوج کے ڈاکٹر اور تھائی حکومت کی مدد سے سات برس کام کیا گیا اور اس میں 18سے 30برس کی عمر کے نوجوان لڑکے لڑکیوں نے خود کو تجربے کیلئے پیش کیا جن میں ایچ آئی وی وائرس موجود نہ تھا گزشتہ صدی جہاں بہت سی ایجادات اپنے جلو میں لائی وہاں دنیا کو ایسے لاعلاج بھیانک اور خوفناک مرض کے بارے میں آگاہ کیا جس کو ایڈز کا نام دیا گیا ایڈز مخفف ہے ان چار لفظوں کا (Acquired Immuno Deficiency Syndrome) اس خوفناک مرض نے دریافت ہونے سے لے کر اب تک تقریباً تین کروڑ انسانوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا ہے ۔ آج چار کروڑ سے زائد افراد ایڈز اور ایچ آئی وی پوزیٹو کی زندگی گزار رہے ہیں جن میں سے 25 لاکھ افراد کا تعلق جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا سے ہے، ’’امریکن ایسوسی ایشن برائے سائنسی ترقی‘‘ کے سابق صدر بالٹی مور نے کہا ہے کہ ’’سائنس دان خاصے پریشان تھے لیکن مایوسی کا شکار نہیں تھے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ سائنس دانوں نے ہار مان لی ہے یا ہم نے اپنی کوششوں کو ترک کر دیا تھا‘‘ـ امریکہ نے گزشتہ سال ایڈز کیلئے مختص کردہ رقم یعنی تین ارب ڈالر کے بجٹ کا 22فیصد حصہ صرف ویکسین کی تیاری پر خرچ کر ڈالا۔ حال ہی میں ایڈز ویکسین کے انسانوں پر تجربات کیلئے تھائی لینڈ میں ایک کیمپ منعقد کیا گیا بدھ مت کے ایک مندر کے باہر لگائے گئے اس کیمپ کا انعقاد ایک گیم شو کی طرح ہوا جس میں میزبان وہاں موجود لوگوں کو لاؤڈ سپیکر پر کیمپ کی طرف آنے اور رضا کارانہ طور پر ایچ آئی وی ویکسین کو ٹیسٹ کرنے کی دعوت دے رہا تھا تھوڑی دیر کے بعد کئی لوگ اس ویکسین کو ٹیسٹ کرنےکیلئے کیمپ کے سامنے بنے سٹینڈز جن پر ’’حصہ لیں گے‘‘، ’’حصہ نہیں لیں گے‘‘ اور ’’غیر یقینی ہے‘‘ جیسے نشانات بنے تھے پہنچنا شروع ہو گئے جن میں سے 16 ہزار افراد کو منتخب کر لیا گیا گزشتہ چھ برس سے تھائی لینڈ میں اس طرح کے کیمپوں کاانعقاد ہو رہا تھا۔ ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ‘‘ کی جانب سے شروع کردہ اس مہم میں 16ہزار نوجوان لڑکے لڑکیوں نے ویکسین کا تجربہ کر کے انسانیت کی بیش بہا خدمت کی ہے، عالمی یوم ایڈز کے موقع پر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے رپورٹ کے مطابق صحارا سے ملحق افریقی علاقوں میں جہاں ایڈز موت کی سب سے بڑی وجہ بن گئی ہے وہاں عالمی سطح پر یہ بیماری دنیا کی چوتھی بڑی بیماری ہے ایک تہائی لوگ 14 سے 24 برس کی عمر کے ہیں جن میں سے بیشتر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اس موذی مرض کی جکڑ میں آ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ایڈز کی علامت (ایچ آئی وی پوزیٹو) وائرس داخل ہونے کے چار سال سے سات سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہے۔ حالیہ دریافت ہونے والی ویکسین کے بارے میں سائنس دانوں اور محققوں کا خیال ہے کہ تھائی لینڈ میں ایجاد ہونے والی ویکسین اس بیماری سے بچاؤ کا حقیقی طریقہ نہیں بلکہ بنیادی طور پر ایک ’’چال‘‘ ہے (یہاں یہ بات یاد رہے کہ انسانی جسم کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے) اس طریقے کے مطابق وائرس یا اس کا ایک حصہ لے کر اسےناکارہ بنا دیا جائے یا اس کے اسٹرکچر میں اس طرح کی تبدیلی کی جائے کہ وہ انسانی جسم کو محسوس نہ ہو اور اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔ بعد میں اس تبدیل شدہ وائرس کو انسانی جسم میں داخل کر دیا جائے اور انسانی مدافعتی نظام یہ سمجھے گا کہ کسی بیرونی وائرس نے حملہ کر دیا ہے اور وہ ایک ’’امیون‘‘ خارج کرے گا جو حقیقی طور پر وائرس کے حملہ آور ہونے کی صورت میں جسم کا دفاع کرے گا اور یوں ’’دھوکہ دہی‘‘ سے ہم اپنے جسم کا دفاع کر سکیں گے کہ ایڈز ایک ایسی بیماری ہے جو انسانی جسم کے دفاع کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ معمولی بیماری بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ یہاں میں کسی ’’عالمی سازش‘‘ کا ذکر کیے بغیر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ موذی بیماریوں میں مبتلا ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد اسی تھرڈ ورلڈ میں پائی جاتی ہے۔ اور اس کی وجوہات میں اب صرف ’’ناجائز جنسی اختلاط‘‘ ہی نہیں بلکہ خون کی منتقلی کے دوران خراب خون کے شامل ہو جانے اور انجکشن کی خراب سر ینج سے بھی یہ مرض منتقل ہو رہا ہے۔ آخر پہ میں پھر امریکی سائنس دان پروفیسر بالٹی مور کے انٹرویو کا ایک اقتباس پیش کر کے آپ سے اجازت چاہوں گا۔ ہمیں ایڈز کو شکست دینے کیلئے کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈنا پڑے گا جو گزشتہ چار ارب سال کے ارتقاء کے دوران انسانی جسم نے نہ سیکھا ہو ہم آج کل یہی کوشش کر رہے ہیں۔
بس اتنی عمر تھی اس سرزمین دل پہ میری
پھر اس کے بعد اسے وہم و خواب ہونا تھا