میری ہمیشہ یہ پختہ سوچ رہی ہے کہ بُرے سے بُرے حالات میں بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جذبے سچے ، سوچ مثبت ، آگے بڑھنے کا جنون، دیکھنے، سننے، تنقید برداشت کرنے کی طاقت ہو تو دنیا کا مشکل سے مشکل ترین مرحلہ یا مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ مایوس نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ ایوان صدر سے ایک مثبت خبر آئی ہے کہ گزشتہ کالم ”ارشد ندیم بمقابلہ شاہ زیب رند“ کے نتیجے میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے کمال شفقت فرماتے ہوئے نئے قومی ہیرو عالمی کامبیٹ کراٹے چیمپئن شاہ زیب رند کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسےسات کروڑ روپے کے انعام سے نوازا ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی بھی موجود تھے۔ صدرمملکت نے شاہ زیب رند کی شاندار کامیابی کو سراہتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے نوجوانوں میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے جنہیں مواقع دینے کی ضرورت ہے۔ شکریہ ! صدر آصف علی زرداری صاحب۔ توقع رکھنی چاہئے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ بھی بڑی بہن کی طرح صدر مملکت کے اس احسن اقدام کی پیروی کریں گی کیونکہ منفی سوچ رکھنے والا ایک مخصوص شر پسند گروہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نوجوانوں میں پنجاب بارے نفرتیں پیدا کرکے بلوچستان سے پنجابی مزدوروں کی لاشیں بھیج کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہتا ہے جبکہ خیبرپختونخوا سے مسلسل پنجاب پر لشکر کشی کی جارہی ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ داستان کچھ یوں ہے کہ گنڈاسہ پوروفاق اور پنجاب پر بار بار لشکر کشی کے دوران ہمیشہ اپنے لاؤ لشکر کو تنہا چھوڑ کر خود ساختہ روپوشی اختیار کرکے اچانک سے صوبائی اسمبلی میں گھن گرج کے ساتھ منظر عام پر آجاتے ہیں اور پھرلشکر کشی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ڈبہ فلم ”پتھر کے پھول“ کےکچراا سکرپٹ کے مرکزی مگر ڈمی کردار کو یار لوگ ڈبل ایجنٹ قرار دیتے ہیں کہ خود ساختہ ڈان کو فوج ، رینجرز، پولیس، خفیہ اداروں کے سینکڑوں اہلکاروں کی موجودگی میں بارہ اضلاع کی انتظامیہ پکڑنے میں ناکام کیوں رہی ہے؟ ملکی حالات پر نظر دوڑائیں تو افغان ”فدائیوں“ کے لاؤ لشکر سے اسلام آباد پر چڑھائی کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے قبل وفاقی دارالحکومت پر ”قبضہ“ کرکے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا جائے۔ سوچنے کیلئے یہ سوال کافی ہے کہ ایک طرف افغان فدائیوں کے ذریعے وفاق پر لشکر کشی ہو رہی تھی تو دوسری طرف وزیرستان میں لیفٹیننٹ کرنل محمد علی شوکت سمیت چھ فوجی جوان دفاع وطن کی خاطر افغان دہشت گردوں کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کررہے تھے لیکن گنڈاسہ پور کی زبان سے ان شہداءکیلئے ایک بھی لفظ نہیں نکلا۔ پورے پاکستان میں سب سے پہلے انہی کالموں میں نشان دہی کی گئی تھی کہ گنڈاسہ پور کے ہر لشکرمیں افغان شر پسند مظاہرین کے روپ میںفساد پھیلا رہے ہیں۔ صد شکر! طاقت وروں کی بند آنکھیں تاخیر سے ہی سہی مگر کھلی تو ہیں اور ان کے مکروہ چہروں کو اعترافی بیانات کے ساتھ میڈیا کے سامنے بے نقاب بھی کیا گیا ہے۔ یاد رکھیں!افغان عبوری حکومت، بھارت، اسرائیل اور امریکہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں جو بلوچستان میں کالعدم بی ایل اے اور خیبرپختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ذریعے گریٹ گیم کھیل رہے ہیں۔ آج نہیں تو کل دہشت گردی کے واقعات سے جڑے نیٹ ورک اور گنڈاسہ پور حکومت کی کمزوریوں بارے حقائق کھل کر سامنے آکر ہی رہیں گے۔ بہتر تو یہی تھا کہ پی ٹی ایم پر پابندی لگانےسے قبل اس کے پس پردہ سہولت کاروں اور منظور پشتین کو ہلہ شیری دینے والوں کےبارے تحقیقات کرلی جاتیں تو بہت سے بحرانوں اور امتحانوں سے بچا جاسکتا تھا۔ قیدی نمبر804 کے چاہنے والوں کی بے لوث اور سرفروش محبت سے کوئی انکار نہیں۔ اس بارے بھی کوئی تکرار نہیں کہ موجودہ حکومت تیزی سے ملکی معاشی مسائل پر قابو پا رہی ہے۔ مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں پر قابو پانے کی تدبیریں بار آور ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ 130 رکنی سعودی سرمایہ کاروں کے وفد کی پاکستان آمد ، دو ارب ڈالر کے معاہدوں کی توقع اور شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے بعد ترقی کی نئی راہیں کھلتی نظر آرہی ہیں۔ ایسے میں قیدی نمبر804 کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ خدشہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی گنڈاسہ پور حکومت کوئی نیا چن نہ چڑھا دے۔ وجوہات کچھ اس طرح ہیں کہ جس حکومت کا ترجمان ماضی میں مرشد کی فیض یافتہ حکومت میں افغان طالبان سے مذاکراتی ٹیم کا رابطہ کاررہا ہو، وہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو پی ٹی آئی کے احتجاج میں شرکت اور خطاب کی دعوت دے اور شدید عوامی رد عمل اور طاقت وروں کے دباؤ پر اپنے بیان سے مکر جائے اور سوات واقعے پر صوبائی حکومت کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالے کہ وفاقی حکومت نے غیر ملکی سفارت کاروں کی آمد بارے آگاہ نہیں کیا جبکہ دو اطلاعاتی مراسلے ریکارڈ پر موجود ہوں اور ترجمان صاحب ! گنڈاسہ پور کی خود ساختہ روپوشی کو سیاسی رنگ دے کر جلتی پر تیل کا کام کریں اور ڈان کی انٹری سے قبل راتوں رات صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا جائے اور سارا دن ایوان خالی رہے۔ کارکن اسمبلی کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ایوان کے اندر داخل ہو جائیں اور گنڈاسہ پور اچانک دھوم دھڑکے سے ایوان میں پہنچ کر وفاق اور پنجاب کے خلاف زہر اُگلنے لگیں، داستان امیر حمزہ لکھنے والے نے بھی کیا بے تکاا سکرپٹ لکھا ہے کہ جب بات کسی کے پلے نہ پڑی تو اگلے روز گنڈاسہ پور اپنی روپوشی کی دوبارہ وضاحت کرنے ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔ پھر لاتوں، مکوں، گھونسوں کی بارش میں ارکان اورگیلری میں موجود کرائےکے غنڈے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جائیں تو عقل کے اندھوں کو اس ڈبہ فلم کی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ درپردہ کھیل کسی اور کا کھیلا جارہا ہے۔